قلی اسٹیشن میں 2 جگہ مورچے جمائے ہوئے ہوتے ہیں، میرے بچپن میں قلی ایک پھیرے کے 4 آنے لیتے تھے، بعد میں ہر طرف لوٹ مار مچ گئی

قلی کا شناختی خاکہ
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 95
سرخ رنگ کے کرتے اور ملگجی سی سفید شلوار میں ملبوس، سر پر ڈھیلی ڈھالی پگڑی باندھے قلی اسٹیشن کے ماحول میں بہت ہی جانے پہچانے کردار ہیں۔ یہ اپنے سروں پر کئی کئی ٹرنک، سوٹ کیس، بستر بند اور پتہ نہیں کیا کیا اٹھا کر اور متفرق سامان کاندھوں پر ٹکائے مسافروں کو چوزوں کی طرح اپنے پیچھے لگائے ہوئے انھیں ان کی نشستوں تک چھوڑ کر آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعظم شہبازشریف 2 روزہ دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے
قلیوں پر لوگوں کا عدم اعتبار
نجانے کیوں لوگوں کو ان پر اعتبار نہیں ہوتا، اس لیے مسافروں کے کنبے کا کم از کم ایک فرد یا بچہ ضرور اس کے ساتھ چپکا رہتا ہے اور تیز تیز قدموں سے اس کا پیچھا کرتا ہے، حالانکہ یہ بہت ہی اچھے، ذمے دار اور ایماندار لوگ ہوتے ہیں۔ میرے بچپن میں قلی ایک پھیرے کے چار آنے لیتے تھے اور یہی ان کا سرکاری معاوضہ بھی تھا جو اسٹیشن پر جگہ جگہ لکھا ہوا بھی ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بیلا روس کے صدر کی آرمی چیف سے ملاقات، باہمی دلچسپی کے امور، دفاعی تعاون کے امکانات اور علاقائی سلامتی پر تبادلہ خیال
قلیوں کی موجودہ صورتحال
اب یہ لوگ حقیقتاً مسافروں کی مجبوری کا ناجائز فائدہ اٹھانے لگے ہیں اور بات چار آنے یا چار روپے سے آگے بڑھ کر چار پانچ سو تک جا پہنچی ہے۔ مجبوری میں طے گئے معاوضے کے علاوہ یہ اس بات کی توقع بھی رکھتے ہیں کہ سو پچاس کی الگ سے بخشش بھی مل جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: داسو میں چینی انجینیئرز پر حملے کے دو ملزم فرار ہوتے ہوئے ہلاک: سی ٹی ڈی پنجاب
قلیوں کی تقسیم
عام حالات میں قلی اسٹیشن میں دو جگہ اپنے مورچے جمائے ہوئے ہوتے ہیں۔ ایک تو وہ جو اسٹیشن کے باہر بیٹھے ہوتے ہیں اور جوں ہی کوئی گاڑی، رکشا، تانگہ، ٹیکسی یا بگھی آ کر اسٹیشن کے سامنے رکتی ہے تو وہ بمثلِ عقاب جھپٹ پڑتے ہیں۔ جس نے سب سے پہلے جا کر سامان پر ہاتھ رکھ دیا، وہ ایک غیرتحریر شدہ معاہدے کے مطابق اُسی کا ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مہنگی ترین ہیوی بائیکس اب کروڑوں میں نہیں صرف لاکھوں میں خریدیں، ایک سے بڑھ کر ایک۔۔۔
قلی کے دوسرے قسم کے کردار
قلیوں کی دوسری قسم اسٹیشن کے اندر پلیٹ فارم پر پائی جاتی ہے جو فارغ وقت میں چائے بیڑی پیتے ہیں یا ادھر ادھر بیٹھ کر سستاتے اور آپس میں خوش گپیاں کرتے رہتے ہیں۔ جونہی گاڑی کے پہنچنے کی گھنٹی بجتی ہے تو وہ انگڑائی لے کر اٹھتے ہیں اور سرخ چیونٹیوں کی طرح پورے پلیٹ فارم پر پھیل جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز نے آئینہ دکھایا تو فتنہ پارٹی کے چمچے کڑچھے طیش میں آگئے ہیں: عظمیٰ بخاری
کاروبار کا طریقہ
گاڑی کی آمد سے ذرا پہلے وہ پلیٹ فارم کے کنارے پر ایک لمبی قطار بنا کر بیٹھ جاتے ہیں اور دھیمی رفتار سے اسٹیشن میں داخل ہوتی ہوئی گاڑی کو دیکھتے رہتے ہیں۔ اس کے رکتے ہی وہ چھلانگ لگا کر اپنے سامنے آ کر رکنے والے ڈبے میں داخل ہو جاتے ہیں اور یہاں اترنے کے منتظر مسافروں کا سامان اٹھا کر تیز تیز قدموں سے ڈبے کے باہر نکل آتے ہیں۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔