دعا ہے کہ باصلاحیت مخلص، قائد و اقبال کا وژن رکھنے والی قیادت میسر آئے جو گلے سڑے سیاسی، تعلیمی نظاموں اور اداروں کی اصلاح کر سکے.

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 4
اظہار تشکر
یہ بھی پڑھیں: چیمپئنز ٹرافی، آئی سی سی کا آج ہونے والا اجلاس ملتوی، لیکن کیوں؟ وجہ بھی سامنے آ گئی
پاکستان کی تاریخ میں میرے تجربات
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الہ الا اللہ
اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے پاکستان کو معرضِ وجود میں آئے (76) سال ہوچکے ہیں۔ راقم ان خوش نصیبوں میں سے ایک ہے جنہوں نے اپنے ہوش و حواس میں اپنے بزرگوں کے ساتھ 1947ء میں بھارت سے پاکستان ہجرت کی۔ اس طرح آج تراشی (83) سال کی عمر میں راقم کو پاکستان کی تاریخ کا عینی شاہد ہوتے ہوئے اپنی یادداشتوں کو کہنہ مشق لکھاری نہ ہوتے ہوئے بھی ضبط تحریر میں لانے میں کامیابی ہوئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: یوٹیوب ویڈیو دیکھ کر لیب اٹینڈنٹ نے مریض کی ای سی جی کر ڈالی
شکریہ اور احباب کی قربانیاں
میں اللہ تعالیٰ کا شکرگزار ہوں جس نے مجھے صاحب کتاب ہونے کا شرف بخشا۔ میں اْن احباب کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں جنہوں نے مجھے لکھنے پر اْکسایا اور میری حوصلہ افزائی کی۔ ان دوستوں میں میرے کلاس فیلو اور سابق جج لاہور ہائی کورٹ جناب شیخ محمد رشید، محترم قیوم نظامی جیسے لکھاری، دانشور اور چیئرمین جاگو تحریک، معروف قلم کار وقانون دان ظفر علی راجا اور شاعر و ادیب جناب نذیر قیصر شامل ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: صدر کی برطرف کردہ امریکی جنرل جو چین پر جوہری حملے کی دھمکی دے چکے تھے
کتاب کی تکمیل میں مددگار دوست
میری آپ بیتی "امیر نامہ" کو کتابی شکل دینے کے لئے میرے قریبی دوستوں جناب احمد وسیم، پروفیسر ڈاکٹر محمد شفیق جالندھری، ڈاکٹر صاحبزادہ انوار احمد بگوی (ر) ڈائریکٹر جنرل ہیلتھ اور شاہدمحمود وڑائچ ڈپٹی پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے اس مسودہئ کتاب کی نوک پلک درست کرنے میں دن رات ایک کیا ہے۔ اس کے لیے میں اپنے دوستوں کا شکریہ ادا کرتا ہوں جن کی بدولت میں یہ کتاب منظرِ عام پر لانے میں کامیاب ہوا ہوں۔ میں کمپیوٹر آپریٹر کمپوزر جناب محمود یونس کا بھی ممنون ہوں جو گزشتہ تین سالوں 2020ء سے کتاب کو مکمل کروانے کی عرق ریزی میں میرے ساتھ برابرکے شریک رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کامیابی، مسرت اور ناموری چاہتے ہیں تو نرالا،انوکھا بلکہ مؤثر طریقہ یہ ہے کہ اسکی طلب سے دستبردار ہوجائیں، آپ پریشان اور مایوس نہیں ہونگے.
کتاب کی تصنیف کا پس منظر
میں نے آدھی سے زیادہ کتاب کو اپنی یادداشت کے بل بوتے پر مکمل کیا ہے کیونکہ وکالت میں آنے سے پہلے 1990ء تک میرے پاس گزشتہ 50 سالوں 1941990ء کی کوئی ذاتی ڈائری اور ریکارڈ نہ تھا۔ بعد ازاں بھی، اپنی مصروف زندگی کے باعث، میں کبھی بھی اپنی یاداشتیں مرتب نہ کر سکا۔ البتہ ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن لاہور اور سٹی زن کونسل آف پاکستان کے ریکارڈ اور ظفر علی راجا کی کتاب "بھارت درشن" سے کتاب ہذا مکمل کرنے میں مجھے یقیناً بڑی مدد ملی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی الیکشن، ٹرمپ اور ہیرس کی زبان بندی ؟
کتاب کا اپنا مقصد
یہ بیان کرنا بھی ضروری سمجھتا ہوں کہ میری یہ پیشکش مکمل تاریخ پاکستان نہیں۔ یہ تو مجھے پیش آئے واقعات، میرے مشاہدات و تاثرات اور پاکستان کو گزشتہ 76 سالوں میں درپیش سیاسی، سماجی، اقتصادی مسائل اور ان کا حل پیش کرنے کی ایک کاوش ہے جو سٹی زن کونسل آف پاکستان کے ارکان، احباب کی اجتماعی دانش اور ان کے بے لوث وقت دینے کی مرہون منت ہے۔ افسوس! صد افسوس، ہمارے حکمران اس دوران قومی وسائل اور صلاحیتوں کے مطابق پاکستان کو ترقی و خوشحالی سے ہمکنار کرنے میں ناکام رہے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایمن آباد: وہ شہر جہاں گرو نانک نے گھاس کھا کر کنکریوں پر عبادت کی، قید کاٹی اور چکی بھی پیسی
پاکستان کے مستقبل کی دعا
اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ پاکستان کو ایسی باصلاحیت، مخلص، قائد و اقبال کا وژن رکھنے والی قیادت میسر آئے جو ہمارے گلے سڑے سیاسی، سماجی، اقتصادی، تعلیمی نظاموں اور اداروں کی اصلاح کرکے پاکستان کو ترقی و خوشحالی کی منازل سے ہمکنار کر سکے۔ یہ سب کچھ کیونکر ممکن ہے؟ میں نے اپنی تصنیف میں سوال ہٰذا کا جواب اور لائحہ عمل تجویز کرنے کی کوشش کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قونصل خانے پر حملہ: دلی کی دیپلوماسی کی شرمندگی اور ڈھاکہ کا غصہ، بنگلہ دیش اور بھارت کے درمیان نیا تنازع کیا ہے؟
وفادار کارکنوں کے نام
میری یہ کتاب ان لاکھوں مخلص اور دانش ور کارکنوں کے لیے ہے۔ جنہوں نے دل و جان سے پاکستان کی بہتری کے لیے خود کو وقف کیا ہوا ہے۔
اللہ تعالیٰ پاکستان کے تمام بہی خواہوں کا حامی و ناصر ہو۔
رانا امیر احمد خاں
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔