بعض قلی اتنے ضعیف اور نڈھال ہوتے ہیں کہ سامان اٹھا کر لڑ کھڑاتے پھرتے ہیں دھڑکا لگا رہتا ہے کہیں خود ہی نہ گر جائیں یا سامان نیچے نہ پھینک دیں

مصنف اور قسط کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 96
یہ بھی پڑھیں: مندر بادشاہوں کی موت کے بعد ان کی آخری رسومات کیلئے بنائے جاتے تھے، بادشاہ کی موت کے فوراً بعد قبیلے کے لوگ ان کا قبضہ سنبھال لیتے۔
مسافروں کی حالت
ان میں سے بعض تو اتنے ضعیف اور نڈھال ہوتے ہیں کہ سامان اٹھا کر لڑ کھڑاتے پھرتے ہیں اور ہر لمحہ یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ کہیں وہ خود ہی نہ گر جائیں یا سامان کو نیچے نہ پھینک دیں۔ کچھ مسافروں کو ان پر ترس آتا ہے تو ان کا ہاتھ بٹانے کی خاطر ایک آدھ بھاری نگ خود تھام لیتے ہیں اور اسے طے شدہ معاوضے سے کچھ زیادہ ہی دے کر رخصت کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر داخلہ محسن نقوی سے نئے تعینات ڈی جی ایف آئی اے کی ملاقات،انسانی سمگلنگ میں ملوث مافیا کیخلاف کریک ڈاؤن کا حکم
سفر کے حالات
اب تو پہیوں والی ٹرالیاں اور سوٹ کیس آ گئے ہیں جنہیں مسافر خود ہی کھینچ کھانچ کر لے جاتے ہیں لیکن پچھلے وقتوں میں ایسا نہیں ہوتا تھا۔ تب عموماً ایک مسافر کے ساتھ، جو اپنے خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ سفر کر رہا ہوتا تھا، عموماً چھ سات چھوٹے بڑے نگ ہوتے تھے جن میں بستر بند، فولادی ٹرنک، سوٹ کیس، بیگ، تھیلے، پان دان اور کچھ گٹھریوں کے علاوہ کھانے کا بڑا ٹفن اور پانی کی صراحی بھی ہوتی تھی۔ کچھ روائیت پسند اور شوقین مزاج مسافروں کے پاس تو پنجرے میں قید ایک را طوطا بھی ہوتا تھا جو وہ اس خدشے کے تحت ساتھ لے آتے تھے کہ اگر کسی اور کے حوالے کیا تو بعد میں اس کی مناسب دیکھ بھال نہ ہوئی تو کہیں یہ بے زبان پرندہ مر ہی نہ جائے۔ اس وقت جہاں وہ مہمان بن کر جا رہے ہوتے تھے، وہاں ان کا قیام دنوں کا نہیں بلکہ ہفتوں اور مہینوں کا ہوتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز کا بیان: تحریک انصاف کے لوگ کسی رعایت یا نرمی کے مستحق نہیں!
قلی کی کوششیں
اس دور کے قلی کی کوشش یہ ہوتی تھی کہ سارا سامان وہ تنہا ہی اٹھا کر لے جائے اور کسی دوسرے قلی کو اس کام میں حصے دار نہ بنائے تاکہ اس کے بدلے اسے کچھ اضافی رقم مل سکے۔ اس کی خواہش ہوتی تھی کہ کوئی سہارا دے کر سارا سامان اس کے سر پر رکھوا دے اور متفرق سامان کاندھوں پر ٹکا دے۔ صراحی اور چھوٹی موٹی چیزیں تو وہ ہاتھوں میں پکڑ کر ایک جلوس کی شکل میں مسافروں کو مطلوبہ ڈبے میں چھوڑ آتا تھا، تاہم اگر اس نے اس بات کی ہامی بھری ہوئی ہوتی تھی کہ وہ ڈبے کے اندر ان کو نشستوں کا انتظام بھی کر کے دے گا تو وہ کچھ فالتو پیسے لے کر ایسا بھی کر دیتا تھا۔ اچھے قلی معاوضے پر بحث و مباحثہ نہیں کیا کرتے تھے اور نہ ہی کوئی ناجائز اضافی مطالبہ کیا کرتے تھے، تاہم انھیں یہ امید ضرور رہتی تھی کہ اگر سارے معاملات خوش اسلوبی سے حل ہو جائیں تو مسافر خود ہی کچھ رقم بطور بخشش دے جائے۔
یہ بھی پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم چیلنج کرنے کا فیصلہ پیر تک ہو جائے گا: وقاص اکرم
عہد حاضر کے قلی
ان دنوں قلی کی سرگرمیاں زیادہ تر پلیٹ فارم یا اسٹیشن کی حدود میں ہی رہتی تھیں۔ لیکن عہد حاضر کے قلی تو ایک کلو میٹر دور واشنگ لائن میں کھڑی روانگی کے لیے تیار گاڑیوں کے خالی ڈبوں تک بھی پہنچ جاتے ہیں اور وہاں محکمے کے بدعنوان عملے کی ملی بھگت سے برتھوں اور نشستوں پر قبضہ جما کر چادریں بچھا دیتے ہیں اور پھر گاڑی کے ساتھ ہی پلیٹ فارم پر آتے ہیں اور وہاں موجود طلبگاروں کے ساتھ سودے بازی کرکے ان نشستوں کے اچھے خاصے پیسے بٹور لیتے ہیں۔ بعد ازاں اس رقم کی بندر بانٹ ہوتی ہے، مسافر اس لیے بھی مطمئن ہوتے ہیں کہ کچھ اضافی رقم ادا کرکے وہ یہ سہولتیں حاصل کر لیتے ہیں جو عام حالات میں شاید ان کے بس میں نہ ہوتیں۔ جن مسافروں کی نشستیں پہلے سے محفوظ ہوتی ہیں وہ اس قضیے سے بے پرواہ ہو کر گھومتے پھرتے ہیں اور آخری وقت پر آ کر ڈبے میں داخل ہو کر آرام سے اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ جاتے ہیں۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔