کس نے پولیس کو اختیار دیا کہ لوگوں کو گنجا کرکے ویڈیو سوشل میڈیا پر اپلوڈ کریں؟ لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائی کورٹ کا اہم فیصلہ
لاہور (ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائی کورٹ نے قصور میں لڑکے لڑکیوں کی گرفتاری کے بعد ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے کیس میں ریمارکس دیے کہ پولیس کو یہ اختیار کس نے دیا کہ لوگوں کو گنجا کر کے ان کی ویڈیو سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کریں۔
یہ بھی پڑھیں: سینئر منسٹر مریم اورنگ زیب کا وزراء سمیت جلال پور پیروالا کے نواحی بلوچ واہ بند کا دورہ
کیس کی سماعت
نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق، قصور میں لڑکے اور لڑکیوں کی گرفتاری کے بعد ویڈیو وائرل کرنے سے متعلق کیس میں توہین عدالت کی درخواست پر سماعت لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس علی ضیا باجوہ نے کی۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کے لیے تہلکہ خیز انکشاف: ’کانٹا لگا گرل‘ شیفالی کی موت کی وجہ ’جوان بنانے والی‘ دوائیاں؟
عدالتی استفسارات
عدالتی حکم پر ڈی پی او قصور عدالت میں پیش ہوئے، جس دوران جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسار کیا کہ لوگوں کو گنجا کر کے ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال رہے ہیں؟ پولیس کو یہ اختیار کس قانون نے دیا ہے؟ کیسے کسی بندے کو پکڑ کر گنجا کرکے ویڈیو بناکر سوشل میڈیا پر ڈال دیتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ کا 26 ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواست پر سماعت سے انکار
قانون کی پاسداری
جسٹس علی ضیا باجوہ نے پوچھا کہ اس ملک میں کوئی قانون رہ گیا ہے یا نہیں؟ ویڈیو میں بھارتی فلم کا کلپ مکس کرکے پولیس کے آفیشل سوشل میڈیا پیج پر اپ لوڈ کیا گیا۔ عدالت نے ڈی آئی جی کو کل پیش ہونے کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ آئی جی واقعے کی رپورٹ پیش کریں۔
یہ بھی پڑھیں: ایران اور اسرائیل کی جنگ کے دوران امریکہ اور ایران کے خفیہ رابطے، رائٹرز کا دعویٰ
پولیس کی وضاحت
ڈی پی او نے عدالت کو بتایا کہ جس نے ویڈیو بنائی اس کو معطل کر دیا گیا ہے اور جن لوگوں نے ویڈیو وائرل کی ان کے خلاف پیکا ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر دیا گیا ہے۔ ایس ایچ او کو بھی نوکری سے فارغ کرنے کی سفارش کر دی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں طلاق کی شرح بڑھ رہی ہے ، اداکارہ سائرہ یوسف
عدالت کے احکامات
جسٹس علی ضیا باجوہ نے کہا کہ عدالت کسی بھی قسم کے غیر قانونی کام کی اجازت نہیں دے گی، کسی نے کوئی جرم کیا ہے تو اس کے خلاف کارروائی کریں مگر اس کے عمل کو پبلک کیوں کریں؟
یہ بھی پڑھیں: روس کے سٹریٹجک طیاروں کی تباہی، امریکہ کے لیے نئی پریشانی کھڑی ہوگئی
عدلیہ کی تشویش
سرکاری وکیل نے عدالت کو بتایا کہ تفتیشی افسر نے ملزموں کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کی استدعا کی تھی، تفتیشی افسر نے ملزموں کو مقدمہ میں سہولت دی۔ عدالت نے کہا کہ کیسی سہولت دی؟ کسی مذہب یا معاشرے میں ایسے عمل کی اجازت نہیں ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: سٹاک ایکسچینج میں ایک اور ریکارڈ قائم،100انڈیکس 1لاکھ 5ہزار پوائنٹس کی سطح عبور کرگیا
غیر اخلاقی سرگرمیوں کا معاملہ
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کا کہنا تھاکہ فارم ہاو¿س پر غیر اخلاقی سرگرمیوں اور پارٹیوں کا انعقاد ہوتا ہے، جس پر عدالت نے کہاکہ ایسے کام کی کوئی اجازت نہیں، اور پولیس کو اس پر کارروائی کرنی چاہئے مگر ویڈیو بنا کر وائرل کرنے کی اجازت نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی کرکٹر ہاردک پانڈیا کی سابقہ اہلیہ نتاشا نے طلاق کے بعد نیا سفر شروع کر دیا
عدالت کی مزید ہدایت
ڈی پی او نے بتایا کہ فارم ہاو¿س کا مالک فرار ہو گیا ہے۔ عدالت نے کہا کہ فارم ہاو¿س کے مالک کو فرار نہیں ہونا چاہئے تھا۔ عدالت نے حکم دیا کہ آئندہ سماعت پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی پیش ہوں گے اور وضاحت کریں گے کہ دنیا میں کسی زیر حراست ملزم کو ایکسپوز کرنے کا قانون موجود ہے؟
توہین عدالت کا نوٹس
لاہور ہائی کورٹ نے قصور پولیس کے تفتیشی افسر صادق، کانسٹیبل اور ایس ایچ او کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتے ہوئے کہا کہ عدالتی حکم کی خلاف ورزی پر کیوں نہ پولیس والوں کو 6 ماہ کیلئے جیل بھیج دیا جائے۔