کوئی رانا ضد پر اَڑ جائے تو رانی بھی اسے منا نہیں سکتی، میری کیا حیثیت ہے، دل پر پتھر رکھتے ہوئے کہا”قبول ہے۔ قبول ہے۔ قبول ہے“

مصنف
رانا امیر احمد خاں
یہ بھی پڑھیں: نام نہاد پرامن احتجاج کی آڑ میں پولیس، رینجرز پر حملے قابل مذمت ہیں، وزیراعظم کا رینجرز اہلکاروں کی شہادت پر اظہار افسوس
قسط: 7
یہ بھی پڑھیں: متحدہ عرب امارات میں بھی پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ
بات چیت کا آغاز
”پھر فرمایا:آپ چاہیں تو اس تنظیم کے صدر بھی بن سکتے ہیں۔“
میں نے ان کی نگاہ انتخاب پر ان کا شکریہ ادا کیا اور عرض کی کہ وکالت کے علاوہ میں نے خود کو اور بھی بہت سے جھمیلوں میں پھنسا رکھا ہے۔ روزنامہ”نوائے وقت“ میں ہر روز ایک قطعہ لکھتا ہوں۔ اسی اخبار کے صفحہ 3 کی ادارتی ذمہ داریاں اور زراعت پر ایک ہفتہ وار تحقیقی مضمون لکھنے کا بوجھ بھی میرے کاندھوں پر ہے۔ کالم نگاری اور شاعری میں کرتا ہوں۔ پاکستان ٹیلی وژن پر قانونی پروگرام کی میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دے رہا ہوں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کو سونے کی کان ریکو ڈک کیلئے 5 ارب ڈالر کی غیر ملکی سرمایہ کاری کی پیشکش
عہدہ کی ذمہ داریاں
اگر سٹیزن کونسل کا جنرل سیکرٹری بن گیا تو ان ذمہ داریوں سے انصاف نہیں کر سکوں گا البتہ اس کا رکن بننے میں مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ رانا صاحب نے میری بہانہ بازی سْنی، زیرِ لب مسکرائے اور بولے:
”راجا جی میں بہت امید لے کر آپ کے پاس آیا ہوں۔ آپ اتنا کچھ کر رہے ہیں تو اپنے وطن پاکستان اور پاکستانی عوام کی بھلائی کے لیے بھی کچھ وقت ضرور نکالیں۔“
یہ بھی پڑھیں: ایران سے متعلق خاموشی سے تعمیری کردار ادا کرنے پر امریکہ نے پاکستان کی تعریف کردی
رانا صاحب کی خواہش
پھر رانا صاحب کا لہجہ اچانک بدل گیا اور انہوں نے رانا سانگا کی طرح تحکمانہ لہجے میں کہا…!
”میں یہاں انکار سْننے نہیں آیا جب تک آپ قبول ہے۔ قبول ہے۔ قبول ہے نہیں کہیں گے میں آپ کے دفتر میں بیٹھا رہوں گا۔“
یہ بھی پڑھیں: دبئی میں کاروں کا فراڈ کیسے ہو رہا ہے؟
دوستی کا آغاز
ماضی میں مشہور صحافی رانا اکرام سمیت کے کچھ رانا صاحبان سے میری دوستی رہی ہے۔ مجھے علم تھا کہ کوئی رانا اپنی ضد پر اَڑ جائے تو اس کی رانی بھی اسے منا نہیں سکتی۔ میری کیا حیثیت ہے لہٰذا میں نے دل پر پتھر رکھتے ہوئے، نہ چاہنے کے باوجود رانا امیر احمد خاں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا:
”قبول ہے۔ قبول ہے۔ قبول ہے۔“
یہ بھی پڑھیں: دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں: مقبوضہ کشمیر کے مسلمان اور ہندو بھی پاکستان کی محبت سے سرشار۔۔۔ویڈیو دیکھیں
ملاقاتوں کا سلسلہ
اس کے بعد رانا صاحب اور میری حقیقی دوستی کا آغاز ہوا۔ اس دن سے آج تک ہم ہفتے میں ایک دن ضرور ملاقات کرتے ہیں۔ کسی ہفتے ناغہ ہو جائے تو ٹھیک ساڑھے تین بجے بعد دوپہر رانا صاحب کا فون آتا ہے اور وہ ایک سکول ٹیچر کی طرح ڈانٹتے ہوئے غیر حاضری کی وجہ دریافت کرتے ہیں۔ پھر میری بہانہ بازی سْن کر زور سے ہنستے ہوئے میری رخصت کی درخواست منظور کر لیتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ کے دورۂ جاپان کیخلاف شرمناک مہم ملک دشمنی کی بدترین مثال ہے:عظمیٰ بخاری
رانا صاحب کے سوالات
ساتھ ہی ساتھ یہ سناؤنی بھی سْنا دیتے ہیں کہ آپ کے بغیر محفل آرائی کے رنگ پھیکے پھیکے سے محسوس ہو رہے ہیں۔ کبھی کبھی میرا یہ شعر بھی میری کوتاہی کی سزا کے طور پر سنا دیتے ہیں:
محفلیں برپا ہیں راجا جی مگر
آپ جیسی بزم آرائی کہاں
یہ بھی پڑھیں: بھارت یہ پانی راجستھان کو جانیوالی نہروں کی طرف بھی بھجوا سکتا تھا: رمیش سنگھ اروڑا کھل کر بول پڑے
رانا صاحب کی حقیقت
زراعت پر میرے ہفتہ وار مضامین پڑھنے کے بعد رانا صاحب جڑانوالہ میں اپنی ملکیتی اراضی کے بارے میں کبھی کبھی کوئی سوال پوچھ لیا کرتے تھے۔ رانا صاحب کا قد کاٹھ اور حلیہ دیکھ کر میں دل ہی دل میں ان کے جڑانوالیہ ہونے پر شکوک کا شکار رہتا تھا۔ دوستی بڑھنے پر معلوم ہوا کہ رانا صاحب دراصل جڑانولوی نہیں بلکہ انبالوی ہیں۔ 6 سال کی عمر میں انہوں نے انبالہ شہر کے قریب اپنے گاؤں جانا شروع کر دیا تھا۔ وہاں ان کی دلچسپی کے بہت سے سامان تھے۔ اسی عمر میں انہوں نے اپنے گاؤں میں گھوڑا سواری سیکھی۔ گاؤں کے درختوں پر رنگ برنگے پرندے چہچہاتے تھے۔ رانا صاحب کو کوئل کی کوک بہت پسند تھی۔ یہ کْوک ان کے کانوں میں گھنٹوں رس گھولتی تھی۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔