برطانوی سپریم کورٹ کا ٹرانس جینڈر کو عورت ماننے سے انکار
برطانیہ کی سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ
لندن (ڈیلی پاکستان آن لائن) برطانیہ کی سپریم کورٹ نے ایک اہم اور تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے کہا ہے کہ 2010 کے ”ایکوئیلٹی ایکٹ“ (Equality Act) میں درج الفاظ ”عورت“ اور ”جنس“ صرف حیاتیاتی (بائیولوجیکل) عورت اور حیاتیاتی جنس کو ظاہر کرتے ہیں، اور اس میں وہ خواجہ سرا (ٹرانس جینڈر) خواتین شامل نہیں جو جینڈر ریکگنیشن سرٹیفکیٹ رکھتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: 5 اگست احتجاج؛ پی ٹی آئی کارکنان کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجنے کا حکم
فیصلہ اور اس کی تفصیلات
میڈیا رپورٹ کے مطابق پانچ ججوں پر مشتمل بینچ نے متفقہ طور پر فیصلہ سنایا کہ ایکٹ میں ”عورت“ کی تعریف صرف ان افراد پر لاگو ہوتی ہے جو پیدائش کے وقت حیاتیاتی طور پر عورت ہوں، اور اس میں خواجہ سرا خواتین شامل نہیں۔ اس فیصلے کو ”فور ویمن اسکاٹ لینڈ“ نامی مہم کے تحت چیلنج کیا گیا تھا، جسے جے کے رولنگ کی مالی معاونت حاصل ہے جو کہ مشہور ناول ”ہیری پوٹر“ کی خالق ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت سے وفاداری کسی کام نہ آئی، پاکستان کے خلاف زہر اگلنے والے دانش کنیریا کی تصویر انڈین سٹیڈیم سے ہٹا دی گئی۔
برطانوی حکومت کا رد عمل
فیصلے کے بعد برطانوی حکومت کا کہنا تھا کہ اس سے خواتین اور اداروں جیسے ہسپتالوں، کھیلوں کے کلبوں اور خواتین کی پناہ گاہوں کے لیے ”وضاحت اور اعتماد“ حاصل ہوا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت نے خطرناک ترین ہتھیار کی خریداری کیلئے 5 ارب ڈالرز سے زائد رقم کی منظوری دیدی
قانون کی وضاحت
جج لارڈ ہوج نے کہا کہ قانون میں ”عورت“ کی جو تعریف دی گئی ہے، وہ سادہ اور واضح طور پر حیاتیاتی بنیاد پر مبنی ہے۔ عدالت نے کہا کہ اگر ’جنس‘ کا مطلب صرف حیاتیاتی جنس نہ لیا جائے تو اس سے ایک جیسی جنس کے لیے مخصوص جگہوں، جیسے چینجنگ رومز، پناہ گاہوں اور طبی سہولیات میں عملی مشکلات پیدا ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں دفعہ 144 نافذ، فیڈ ملز میں گندم کے استعمال پر فوری پابندی عائد
اسکاٹش حکومت کی شکست
یہ فیصلہ اسکاٹش حکومت کے لیے ایک بڑی قانونی شکست قرار دیا جا رہا ہے، کیونکہ وہ اس قانون سازی کی حمایت کر رہی تھی جس کے تحت جینڈر ریکگنیشن سرٹیفکیٹ رکھنے والی خواجہ سرا خواتین کو خواتین کے لیے مخصوص عوامی بورڈز میں شامل کیا جا سکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ارشد شریف مرحوم کی والدہ انتقال کر گئیں
سیاسی مشاورت
اسکاٹ لینڈ کے پہلے وزیر جان سونی نے فیصلے کو قبول کرتے ہوئے کہا، ’ہم اب اس فیصلے کے اثرات پر بات چیت کریں گے، اور یہ یقینی بنائیں گے کہ تمام افراد کے حقوق محفوظ رہیں۔‘
یہ بھی پڑھیں: کیسی بھول ہوئی ظالم سے جس نے ہمیں للکارا ہے۔۔۔
ٹرانس رائٹس کی مہم کا رد عمل
دوسری جانب ٹرانس رائٹس کی مہم چلانے والے گروہوں نے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔ اسکاٹش ٹرانس نے اپنے بیان میں کہا، ’یہ فیصلہ گزشتہ 20 برسوں کی قانونی تفہیم کو پلٹ کر رکھ دیتا ہے۔ ہم اب بھی ایک ایسی دنیا کے لیے کام جاری رکھیں گے جہاں ٹرانس افراد کو رازداری، عزت اور تحفظ حاصل ہو۔‘
یہ بھی پڑھیں: امریکہ میں مودی سرکار کا خفیہ نیٹ ورک بے نقاب، ہندو امریکن فاؤنڈیشن کس کی آلۂ کار نکلی ۔۔۔؟ گارڈین کی رپورٹ میں تہلکہ خیز انکشافات
ایمنسٹی انٹرنیشنل کا بیان
”ایمنسٹی انٹرنیشنل یوکے“ کے سربراہ ساشا دشموک نے کہا کہ اگرچہ فیصلہ مایوس کن ہے، لیکن عدالت نے یہ واضح کیا ہے کہ ٹرانس افراد اب بھی امتیازی سلوک اور ہراسانی سے تحفظ کے قانون کے تحت محفوظ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: قومی ویٹ لفٹنگ فیڈریشن کو معطل کر دیا گیا
سماجی میڈیا پر جے کے رولنگ کا موقف
جے کے رولنگ نے بھی سوشل میڈیا پر بیان دیتے ہوئے کہا، ’تین بہادر اور باہمت اسکاٹش خواتین نے یہ مقدمہ سپریم کورٹ تک پہنچایا، اور میں ان پر فخر کرتی ہوں۔‘
مستقبل کے اثرات
یہ فیصلہ نہ صرف قانون سازی میں وضاحت کا باعث بنے گا بلکہ خواتین کے لیے مخصوص مقامات کے تحفظ کے حوالے سے طویل عرصے سے جاری مباحثے میں ایک فیصلہ کن موڑ بھی ثابت ہو سکتا ہے۔








