لاہور ہائیکورٹ نے تھانوں میں ملزمان کے انٹرویوز پر پابندی لگا دی
لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائیکورٹ نے تھانوں میں ملزمان کے انٹرویوز پر پابندی لگا دی۔
یہ بھی پڑھیں: سابق شوہر کی وجہ سے گزشتہ 8 ماہ سے اپنی بیٹی سے نہیں ملی، اداکارہ صاحبہ کی والدہ کا انکشاف
کیس کی سماعت
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق قصور میں مبینہ ڈانس پارٹی سے گرفتار ملزمان کی ویڈیو بنا کر سوشل میڈیا پر وائرل کرنے کے خلاف کیس کی سماعت جسٹس علی ضیاء باجوہ نے کی۔ عدالتی حکم پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب امجد پرویز اور ڈی آئی جی سکیورٹی عدالت میں پیش ہوئے۔
یہ بھی پڑھیں: عید سے قبل عمران خان کی رہائی کا کوئی امکان نہیں،تجزیہ نگار نے بتادیا
عدالتی ریمارکس
عدالت نے ریمارکس دیے کہ قانون کے مطابق انڈر کسٹڈی ملزمان کو میڈیا کے سامنے پیش نہیں کیا جا سکتا، آج کے بعد اگر کسی تھانیدار نے اس طرح کا انٹرویو میڈیا کو کرایا تو متعلقہ ایس پی ذمہ دار ہو گا۔
یہ بھی پڑھیں: بابر اعظم اور محمد رضوان کے بغیر پاکستان ٹیم انٹرنیشنل ٹورنامنٹس کے لیے فٹ نہیں، فواد چوہدری
ملزمان کی عزت کا خیال
عدالت نے مزید کہا کہ اگر کسی تھانے میں کسی کو گنجا کیا گیا، ایکسپوز کیا گیا یا ملزمان کی تذلیل کی گئی تو متعلقہ پولیس آفیسر کے پورٹ فولیو میں لکھا جائے گا کہ اس نے کیا کارنامہ سرانجام دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: شملہ معاہدہ تاحال منسوخ نہیں کیا گیا، نجی نیوز چینل کا دعویٰ
انٹرویوز کا طریقہ کار
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے مزید کہا کہ لوگوں کی ٹنڈیں کرنے کی اجازت ہرگز نہیں دی جا سکتی، یہ قانون کے منافی ہے۔ پری میچور اس طرح کی ویڈیو جاری ہونے سے ملزم اور مدعی دونوں کا کیس خراب ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کل جماعتی حریت کانفرنس کا 8 جولائی کو کراچی میں جموں کشمیر بنیان مرصوص ریلی نکالنے کا اعلان
مفاہمتی اجلاس
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سینئر صحافی اور کورٹ رپورٹرز کے صدر محمد اشفاق کو عدالتی معاون مقرر کیا گیا تھا۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے اشفاق سے سوال کیا کہ یہ ملزمان کے انٹرویو کیسے ہوتے ہیں؟ محمد اشفاق نے جواب دیا کہ یہ انٹرویوز پولیس ہی کرواتی ہے اور زیادہ تر یوٹیوب چینلز ایسے انٹرویوز کرتے ہیں جبکہ کچھ چینلز کے علاوہ مین سٹریم میڈیا ایسے انٹرویوز نہیں کرتا۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بھارت کشیدگی، ٹک ٹاکر جنت مرزا نے تنقید کے بعد خاموشی توڑ دی
آئینی حقوق کی پاسداری
ایڈووکیٹ جنرل امجد پرویز نے عدالت میں مؤقف اختیار کیا کہ آئین کا آرٹیکل 14 شہریوں کے تحفظ کی بات کرتا ہے۔ جس پر جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس دیے کہ شہریوں کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ اس درخواست کے دائر ہونے سے پہلے ہی مریم نواز نے قصور واقعہ کا نوٹس لے لیا تھا اور واقعے کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بھی بنائی گئی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے وفاقی بجٹ مسترد کردیا
انکوائری رپورٹ
ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ نے تحقیقاتی رپورٹ عدالت میں پیش کی۔ جسٹس علی ضیاء باجوہ نے سوال کیا کہ رپورٹ کے نتائج کیا ہیں؟ جس پر بتایا گیا کہ ایس ایچ او اور دو کانسٹیبل اس سارے معاملے میں قصوروار پائے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: موبائل فون اور راستے تیسرے روز بھی بند، راولپنڈی اور اسلام آباد متاثر
پولیس کی گائیڈ لائنز
عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کو ہدایت کی کہ وہ پولیس کی سوشل میڈیا پالیسی کو سپروائز کریں اور اس حوالے سے پولیس کو گائیڈ لائنز دیں۔ عدالت نے ایڈیشنل آئی جی کو بھی میڈیا کو انٹرویو دینے سے متعلق گائیڈ لائنز جاری کرنے کی ہدایت کی۔
یہ بھی پڑھیں: علیمہ خان، عظمیٰ خان کے مزید جسمانی ریمانڈ کی استدعا پر فیصلہ محفوظ
پراسیکیوشن کے کیس کی خرابی
جسٹس علی ضیاء باجوہ نے ریمارکس دیے کہ کوئی خاتون کیمرہ اٹھا کر پولیس اسٹیشن چلی جاتی ہے، اس کے تھب نیل ایسے ہوتے ہیں کہ انسان فیملی کے ساتھ بیٹھ کر وہ کانٹینٹ نہیں دیکھ سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس طرح کا رویہ اور انٹرویوز پراسیکیوشن کے کیس کو خراب کرتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز کا ساؤتھ ایشیئن کراٹے چیمپئن شپ میں 2 پاکستانی کھلاڑیوں کو گولڈ میڈل جیتنے پر مبارکباد
ویڈیو بنانے کا معاملہ
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سب سے پہلے اس طرح کے انٹرویوز اور ویڈیوز کا نقصان پراسیکیوشن کو ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: قصور کے سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں پاک بحریہ کی امدادی کارروائیاں جاری
قانون سازی کی ضرورت
پراسیکیوٹر جنرل پنجاب سید فرہاد علی شاہ نے کہا کہ ہم ایڈووکیٹ جنرل آفس، پراسیکیوٹر جنرل آفس اور پولیس مل کر قانون سازی کے لیے تیار ہیں۔
آخری سماعت
ایڈیشنل آئی جی اسپیشل برانچ نے عدالت کو بتایا کہ پی ایس او اور دو اہلکاروں کو معطل کر دیا گیا ہے۔ عدالت نے ڈی آئی جی آپریشنز کو ہدایت کی کہ وہ آئندہ سماعت پر اپنی سوشل میڈیا پالیسی عدالت میں جمع کروائیں۔ مزید سماعت 25 اپریل تک ملتوی کر دی گئی۔








