دوسری شادی کرنے کی صورت میں بچے کی کسٹڈی کا حق دار کون؟ عدالت کا بڑا فیصلہ سامنے آ گیا

لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس ایس رضا کاظمی نے بچوں کی حوالگی کے حوالے سے بڑا فیصلہ سناتے ہوئے، دوسری شادی کرنے کے باوجود ماں کو ہی بچے کی کسٹڈی کا حق دار قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: شاہ محمود قریشی کی بانی پی ٹی آئی سے ضمنی الیکشن بائیکاٹ کے فیصلے پر نظر ثانی کی اپیل
تحریری فیصلہ
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق، جسٹس احسن رضا کاظمی نے نازیہ بی بی کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا۔ عدالت نے دوسری شادی کی بنیاد پر دس سالہ بچے کو ماں سے لیکر باپ کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین سینیٹ اور سپیکر قومی اسمبلی کی تنخواہ میں اضافہ، اب ماہانہ تنخواہ کتنی ہوگی؟ پتہ چل گیا۔
بچوں کی فلاح و بہبود
فیصلے میں کہا گیا کہ بچوں کے حوالگی کے کیسز میں سب سے اہم نقطہ بچوں کی فلاح و بہبود ہونا چاہیے۔ عام طور پر ماں کو ہی بچوں کی کسٹڈی کا حق ہے۔ اگر ماں دوسری شادی کر لے تو یہ حق ضبط کر لیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کا کرنٹ اکاؤنٹ 14 سال بعد سرپلس ہوگیا
ماں کا حق
فیصلے میں کہا گیا کہ یہ کوئی حتمی اصول نہیں ہے کہ ماں دوسری شادی کرنے پر بچوں سے محروم ہو جائے گی۔ غیر معمولی حالات میں عدالت ماں کی دوسری شادی کے باوجود بچے کی بہتری کے لئے اسے ماں کے حوالے کرسکتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما زین قریشی مستعفی
موجودہ کیس کی اہمیت
فیصلے میں کہا گیا کہ موجودہ کیس میں یہ حقیقت ہے کہ بچہ شروع دن سے ماں کے پاس ہے۔ صرف دوسری شادی کرنے پر ماں سے بچے کی کسٹڈی واپس لینا درست فیصلہ نہیں، ایسے سخت فیصلے سے بچے کی شخصیت پر بہت برا اثر پڑ سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: افغانستان میں زلزلے سے ہلاکتوں کی تعداد 2205 ہو گئی، 3640 افراد زخمی ہیں: ہلال احمر سوسائٹی
جج کا موقف
جج نے قرار دیا کہ موجودہ کیس میں میاں بیوی کی علیحدگی 2016 میں ہوئی۔ والد نے 2022 میں بچے کی حوالگی کے حوالے سے فیصلہ دائر کیا، اور والد اپنے دعوے میں یہ بتانے سے قاصر رہا کہ اس نے چھ سال تک کیوں دعویٰ نہیں دائر کیا۔
حوالگی کا دعویٰ
فیصلے میں کہا گیا کہ والد نے بچے کے خرچے کے دعوے ممکنہ شکست کے باعث حوالگی کا دعویٰ دائر کیا۔ ٹرائل کورٹ نے کیس میں اٹھائے گئے اہم نقاط کو دیکھے بغیر فیصلہ کیا۔ عدالت ٹرائل کورٹ کی جانب سے بچے کی حوالگی والد کو دینے کا فیصلہ کالعدم قرار دیتی ہے۔