عمارت پہلے سنسان مگر سرسبز پہاڑوں کے دامن میں تھی،آفر جوانی کے جوش میں قبول کر لی،کمبل سردی کے سامنے بے بس تھے اور ہم بے یارو مددگار

مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 147
یہ بھی پڑھیں: آسٹریلوی بولرز نے بھارتی بیٹرز کا غرور خاک میں ملادیا، 10 وکٹوں سے روند دیا
کہانی کا آغاز
خیرے منصوبے کے مطابق شعیب اس اہل کار کو بلا لایا۔ شعیب اور پھر احد اور آخر میں کالی مرسیڈز کو دیکھ کر اس کا گورا رنگ کالا ہو گیا تھا۔ میں دھوپ کا چشمہ لگا ئے باپ کی موٹر کی پچھلی سیٹ پر بیٹھا تھا۔ وہ میرے پاس آیا تو میں نے آ نکھیں ماتھے پر رکھیں اور ٹھیٹ پنجابی میں کہا؛ “توں میکے دوست دی بی اے دی ڈگری ول روی ودا ایں۔ ول جے کل تئیں جاری نہ وندی۔۔” میں نے اب شعیب کی طرف دیکھ کر کہا “بلے خان! ول جے ڈگری کل تئیں جاری نہ گدی ول اسوں ڈیرہ گھن آسو۔” وہ گرا نہیں بس اس کے منہ سے اتنا نکلا؛ “جناب رحم کریں۔ صبح ڈگری مل جائے گی۔” میں اس کی بات ختم ہونے سے پہلے موٹر کا شیشہ اوپر اور اس کا سانس نیچے کر چکا تھا۔ اگلے روز جب فیصل ڈگری لینے گیا تو ڈگری اس کے ہاتھ میں تھمانے سے پہلے وہ اسے چائے اور سموسے کھلا چکا تھا اور ساتھ رحم کی بھیک کا طلب گار تھا۔ واہ کیا وقت تھا۔ ایسی چوہدراہٹ، حماقت، ناسمجھی صرف جوانی میں ہی کی جا سکتی تھی لیکن چس(مزا) بڑا آ یا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ویوو V40 5G اب پاکستان میں ZEISS کے ساتھ خریدنے کے لیے دستیاب، قیمت بھی افشا
ناران کا پہلا سفر
8384 میں اکبر خاں، فیصل، طارق، شعیب، وکی، بنٹو اور میں پانچ دن کے لئے ناران گئے۔ لاہور سے "ناران یوتھ ہوسٹل" کی بکنگ کرائی اورریل کار سے راولپنڈی اور ویگن سے بالا کوٹ پہنچے تھے۔ بالاکوٹ پہنچے تو گرمی نے برا حال کر دیا تھا۔ سامنے بہتے دریائے کہنار کے بڑے سے پتھر سے ٹکراتے کہنار کے ٹھنڈے یخ پانی میں نہائے تو جسموں میں کپکپی تو طاری ہو ئی تھی مگر جسم ترو تازہ ہو گئے تھے۔ رات ہم نے ہائی سکول کے کمرے میں سکول چوکیدار کو 20 روپے دے کر بسر کی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب اور قطر نے شام کے ذمہ قرض ورلڈ بینک کو ادا کردیا
یادگار لمحات
اگلے روز علی الصبح ویگن میں سوار ہوئے اور ہچکولے کھاتے ٹوٹی سڑک پر شاندار نظاروں کا لطف اٹھاتے دریائے کنہار کے ساتھ ساتھ سفر کرتے بعد دوپہر ناران پہنچے تھے۔ پہلی بار اونچے پہاڑ ساتھ بہتا دریا ہمارے لئے بڑا تھرلنگ سفر تھا۔ اس زمانے میں ناران چھوٹی سی جگہ تھی۔ کم سیاح ہی اُدھر کا رخ کرتے تھے۔ ہوٹل بھی عام سے تھے، سفری سہولیات بھی کم اور سڑک بھی بری حالت میں تھی۔ ناران کی واحد attraction ان دنوں ٹراؤٹ فش اور جھیل سیف الموک تھی جس کے بارے دیو مالائی کہانیاں سن رکھی تھیں۔ بابو سر ٹاپ کے راستے پر جھیل لولو سر بھی تھی لیکن اس زمانے میں وہ راستہ نہایت خطرناک تھا۔ جس روز ہم ناران پہنچے اس سے اگلے روز ہی سیاحوں سے بھری جیپ گہری کھائی میں جا گری تھی تو ہم نے بابو سر جانے کا ارادہ ہی ترک کر دیا تھا۔ کہنار کے کنارے موٹل تھا اور اس کے قریب ہی ماہی پروری کا دفتر جہاں سے "ٹراؤٹ" مچھلی کے شکار کا پرمٹ ملتا تھا۔ ہم نے پرمٹ لے کر مچھلی پکڑنے کی کئی گھنٹے ناکام کوشش کے بعد مقامی مچھیرے سے 100 روپے کلو کے حساب سے 2 کلو مچھلی لی، فرائی کرائی اور مزے سے کھائی تھی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کی پچز پر کھیل کر مستقبل میں فائدہ ہوگا، انگلش بیٹر کی میڈیا ٹاک
رات کی مشکلات
اس زمانے میں یوتھ ہوسٹل کی عمارت ناران قصبہ سے تقریباً ایک کلومیٹر پہلے سنسان مگر سرسبز پہاڑوں کے دامن میں تھی۔ (اب یہاں یوتھ ہوسٹل کی اچھی عمارت بن چکی ہے۔) شام کو ہم یہاں پہنچے تو ہوسٹل کے انچارج نے بتایا؛ "ابھی کمرہ خالی نہیں ہوا کہ جانے والے مہمان ایک روز اور رک گئے تھے۔" تھوڑی بحث کے بعد انچارج نے ہمیں ہوسٹل کے باہر پکے فرش پر بستر بچھا کر رات بسر کرنے کی آفر کی جو ہم نادانوں نے جوانی کے جوش میں قبول تو کر لی تھی۔ یہ ایک اور حماقت تھی۔ کھانا کھا کر ہم سونے کو آئے تو سردی رات گزرتے ساتھ بڑھ رہی تھی۔ ہمیں دئیے گئے کمبل کھلے آسمان تلے سردی کے سامنے بے بس تھے اور ہم بے یارو مددگار۔ بہرحال جو بھی اپنے ساتھ جتنے گرم کپڑے لایا تھا سب پہن لئے پھر جا کر کچھ سکون ہوا تو نیند کی وادی میں پہنچ گئے۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔