کینیڈین پارلیمانی انتخابات: حکمراں لبرلز کو حریف کنزریٹوز پر برتری
انتخابات کا وقت ختم
ٹورنٹو(ڈیلی پاکستان آن لائن) کینیڈا کے اگلے وزیر اعظم کو منتخب کرنے کے لیے ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ کا وقت ختم ہوگیا، جس کے بعد نتیجے کے حوالے سے ابتدائی اعدادو شمار بھی آنا شروع ہوگئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش سے دلہنوں کی خریدوفروخت، چین نے اپنے شدید کنواروں کو خبردار کردیا
ووٹنگ کا وقت اور عمل
کینیڈا میں پارلیمانی انتخابات پر ووٹنگ صبح 9 بجے سے رات 9 بجے تک جاری رہی، جس میں شہریوں نے اپنے حق رائے دہی کو استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعے کے بعد مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کا کریک ڈاؤن، 1500 کشمیری گرفتار
امیدواروں کا مقابلہ
کینیڈا کے وزیراعظم اور لبرل پارٹی کے امیدوار مارک کارنی اور کنزرویٹو پارٹی کے پیئر پولی ایو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع تھا۔ 343 کے ایوان میں اکثریت حاصل کرنے کیلئے کسی بھی پارٹی کو 172 نشستیں درکار ہوں گی۔
یہ بھی پڑھیں: سوات: سیاحوں کی ہلاکت کے بعد ایک اور دریائی مقام پر مزید شہری پھنس گئے
ابتدائی نتائج کی پیشگوئی
خبر رساں ایجنسی کے مطابق، متعدد میڈیا اداروں نے پیشگوئی کی ہے کہ وزیرِ اعظم مارک کارنی کی لبرل پارٹی نے کینیڈا کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کر لی۔
پبلک براڈکاسٹر سی بی سی اور سی ٹی وی نیوز دونوں نے پیشگوئی کی ہے کہ لبرل پارٹی کینیڈا کی اگلی حکومت تشکیل دے گی، تاہم ابھی یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پارٹی کو پارلیمنٹ میں اکثریت حاصل ہوئی ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بھر میں سونے کی فی تولہ قیمت میں 5ہزار 500روپے کی کمی
سیٹوں کا ابتدائی تخمینہ
ووٹنگ کے بعد ابتدائی اعداد و شمار کے مطابق، لبرل پارٹی کو 158 جبکہ کنزرویٹو پارٹی کو 143 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔ اس کے علاوہ بلاک کیوبک کو 24 اور این ڈی پی کو 10 نشستوں پر برتری حاصل ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب نے جناح انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی کا نام تبدیل کرنے کی تجویز مسترد کر دی تھی : سلمان رفیق
پچھلے انتخابات کا تناظر
یاد رہے کہ الیکشن سے پہلے لبرلز کے پاس 152 اور کنزریٹوز کے پاس 120 نشستیں تھیں، جبکہ بلاک کیوبک کے پاس 33 اور این ڈی پی کے پاس 24 نشستیں تھیں۔
انتخابی مسائل
یہ الیکشن ایسے وقت میں ہوئے ہیں جب امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے کینیڈا پر عائد ٹیرف ووٹرز کے ذہنوں پر سوار ہیں۔ اس کے ساتھ ہی شہری علاقوں میں گھروں کی قیمتیں زیادہ ہونا، بے روزگاری کی شرح 6.7 فیصد ہونا اور ہیلتھ کیئر تک لوگوں کی رسائی میں دشواری سمیت دیگر مسائل بھی لوگوں کی توجہ اپنی جانب مبزول کیے ہوئے ہیں۔








