ہمارے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت نے گورننس کے بڑے سنجیدہ مسائل پیدا کیے، اب تو افسر شاہی واضح سیاسی دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔

مصنف کی شناخت
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 154
یہ بھی پڑھیں: کراچی: اغوا اور زیادتی کے مقدمے میں قید ملزم جیل سے فرار
پہلا سرپرائز
میں نے جوائننگ رپورٹ راجہ یعقوب صاحب کو دی۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے مجھے میری نوکری کا پہلا سرپرائیز دیا؛ "میں آپ کی جوائننگ تو لے رہا ہوں پر لالہ موسیٰ آپ کو چارج نہیں ملے گا۔" اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتا قاری بول پڑا؛ "ہم پبلک سروس کمیشن سے سلیکٹ ہو کر آئے ہیں چارج کیوں نہیں ملنا۔" وہ مسکرائے اور بولے؛ "نوجوان! وہاں بیٹھا افسر گجرات کا رہائشی اور مقامی ایم پی اے لیاقت بھدر کا سفارشی ہے۔" اُن سے مزید بحث فضول تھی۔ میں نے اجازت لی اور لالہ موسیٰ روانہ ہو گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ دھماکا: دہشتگردوں کا سر پوری قوت سے کچلنے کا فیصلہ، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن بڑھائے جائیں گے، وفاقی وزیر داخلہ
سفر کی تفصیل
ان دنوں گجرات، لالہ موسیٰ، پنڈی روڈ سنگل تھی اور لالہ موسیٰ پہنچنے میں 20 منٹ لگ جاتے تھے۔ لالہ موسیٰ جی ٹی روڈ پر قدیم قصبہ اور ریلوے کا اہم جنکشن ہے۔ لالہ موسیٰ پراجیکٹ منیجر کا دفتر شہر سے 3 میل جانب کھاریاں لب سڑک تھا۔ میں اپنی موٹر میں دفتر پہنچا۔ اس شاندار سرخ رنگ کی عمارت میں دو اور سرکاری دفاتر بھی تھے، اسسٹنٹ ایجوکیشن افسر محکمہ تعلیم اور زراعت افسر کا۔
یہ بھی پڑھیں: صدر اور وزیرِ اعظم سیکرٹریٹ نے جے یو آئی سے دھوکا کیا:لیاقت بلوچ
اہم کردار
دفتر آیا تو میز پر شلوار قمیض میں ملبوس ایک صاحب بیٹھے تھے۔ ملک محمد عظیم۔ کچھ اور لوگ بھی تھے۔ اپنا تعارف کراتے ہی ملک عظیم بولا؛ "سر! راجہ صاحب نے آپ کے آنے کی اطلاع کر دی تھی۔" عظیم گیارہویں گریڈ کا سب انجینئر تھا اور سترویں گریڈ کی پوست پر تعینات اس ملک کے گورنس نظام کا کھلا مذاق تھا۔ خیر ایسا پاکستان میں ہی ممکن تھا اور آج بھی ہے۔ چھوٹے گریڈ کے افسر کو بڑی پوسٹ پر لگاؤ اور مرضی کے کام کراؤ۔(گورنس کا یہ کامیاب فارمولا 'شریفوں' کا ایجاد کردہ تھا۔)
یہ بھی پڑھیں: صاحبزادہ حامد رضا کا پی ٹی آئی کور کمیٹی سے استعفیٰ ، اسمبلی رکنیت بھی چھوڑنے کا فیصلہ
انتظامی مسائل
ہمارے انتظامی معاملات میں سیاسی مداخلت نے گورنس کے بڑے سنجیدہ مسائل پیدا کیے ہیں۔ اب تو افسر شاہی واضح انداز میں سیاسی دھڑوں میں بٹ چکی ہے۔ اے ڈی ایل جی آفس گجرات کے ہیڈ کلرک چوہدری شان بڑے قابل، سمجھ دار اور پرانے دور کے مروت والے انسان تھے۔ انہوں نے اپنے ماتحتوں محمد عارف اور محمد منیر کو وہ سارے گر سکھائے جو انہیں آتے تھے۔ یہ دونوں بھی انہی کی طرح کامیاب رہے تھے۔ ان سے کبھی کبھار رابطہ ہو جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: وہی لوگ شکوہ و شکایت کرتے ہیں جنہیں اپنی ذات پر اعتماد نہیں ہوتا ایک فضول اور بھونڈا فعل ہے، یاد رکھیے مصیبت کبھی کسی کی مددگار نہیں ہوتی
دوسرا سرپرائز
ملک عظیم سے ملاقات ہوئی وہ بڑے وثوق کے ساتھ بولے؛ "چارج میں آپ کو نہیں دوں گا۔ کل تک یہ آڈر کینسل ہو جائیں گے۔" پہلے دن کا یہ دوسرا سرپرائز تھا۔ خیر ان کی مہربانی میری افسری کو تو پہلا دھچکا لگا کر انہوں نے چائے کا کپ پیش کیا ہی تھا کہ بڑی بڑی مونچھوں والا آدمی میرے پاس آیا اور بولا؛ "سر! میں غلام محمد ہوں، اکاؤنٹس کلرک۔" اپنی چارج رپورٹ پر یہاں دستخط کر دیں۔" میں نے دستخط کیے اور اگلے روز آنے کا کہہ کر واپس گوجرانوالہ جانے سے پہلے بھائی جان بوبی کو فون پر صورت حال سے آگاہ کر دیا تھا。
یہ بھی پڑھیں: سعودی عرب میں ڈھیروں سرکاری ملازمین کو گرفتار کر لیا گیا
افسروں کی پہچان
اس دفتر میں لگے "انر بورڈ" پر افسروں کے ناموں کے ساتھ ان کی ذات بھی نمایاں تھی۔ کوئی ملک تھا تو کوئی گوجر، کوئی جٹ تو کوئی ارائیں۔ مجھے یہ سب کبھی بھی اچھا نہیں لگا۔ میری نظر میں سب سے افضل انسان کا کردار اور اخلاق ہے باقی ہر شے ثانوی حیثیت رکھتی ہے۔ مشہور مسلمان فلسفی "الخوازرمی" کہتے ہیں؛ "کسی انسان کی پرکھ میں اس کے اخلاق کا ایک نمبر ہے، حسب کا صفر، ایک کے دائیں طرف لگا تو 10 بن گئے۔ تعلیم کا ایک اور صفر ہو تو 100 ہو گئے اور وجاہت کا ایک اور صفر۔ کل نمبر ہزار ہو گئے لیکن اگر اخلاق نہیں اور اس کا ایک ہٹا دیا جائے تو پیچھے بندے کی قیمت 3 صفر ہی رہ گئی۔"
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔