ذرا سی غفلت ریلوے کے سارے حفاظتی نظام کو تہہ و بالا کر دیتی ہے، سیکڑوں معصوم زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں، جواب دہ کانٹے والا بھی ہوتا ہے۔

مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 113
یہ بھی پڑھیں: کن کیسز میں “واہ واہ” ہوتی ہے، ججوں کو کس نے “سیاسی” کر دیا؟ انصار عباسی نے اہم سوالات اٹھا دیئے
کیبن کی ساخت
اس کیبن کے چاروں طرف کھڑکیاں ہوتی ہیں جن میں سے دور دور تک ہر طرف خصوصاً ریل کی پٹریوں کا احوال نظر آتا ہے۔ یہاں عموماً ایک ملازم ہوتا ہے جس کو بہت سارے ناموں سے پکارا جاتا ہے، کیبن مین، پوائنٹ مین، سگنل مین اور سیدھی سیدھی زبان میں اس کانٹے والا بھی کہہ دیتے ہیں۔ بڑے اسٹیشن پر ایک سے زیادہ ملازم مل جل کر یہ ذمہ داریاں نبھاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ڈونلڈ ٹرمپ سے جنگ بندی کی درخواست بھارت سے کس رہنما نے کی تھی؟ امریکی ڈیفنس یونیورسٹی کے پروفیسر کا تہلکہ خیز انکشاف
کیبن مین کی ذمہ داریاں
اس کیبن مین کا رابطہ ایک ٹیلیفون کے ذریعے براہ راست اسٹیشن ماسٹر اور کنٹرول روم سے رہتا ہے۔ عام لفظوں میں یہ کہہ لیں کہ یہ اس سے کم رتبے کے لوگوں سے تو بات ہی کرنا گوارا نہیں کرتا، سیدھا ہی اس کا ناطہ حاکم اعلیٰ سے جڑا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں بن گئی پیرس سٹریٹ، دیکھ کر یقین نہ آئے کہ یہ بھی کراچی کا حصہ ہے
ذمہ داری اور خطرات
یہ حقیقتاً بہت ہی ذمہ دار ملازمت ہوتی ہے جس پر پورے ریلوے کے متحرک ہونے کا انحصار ہوتا ہے۔ اس کی ذرا سی غفلت اور غلطی ریلوے کے سارے حفاظتی نظام کو تہہ و بالا کر دیتی ہے جس سے سیکڑوں معصوم زندگیاں داؤ پر لگ جاتی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ایف بی آر کی خیبرپختونخوا کی طرف سے 2 فیصد ٹیکس لگانےکی مخالفت
اسٹیشن ماسٹر اور کیبن مین کے تعلقات
اخلاقی اور انتظامی طور پر گاڑی کے سنبھالنے کی جتنی ذمہ داری اسٹیشن ماسٹر کی ہوتی ہے، ٹھیک اتنا ہی تکنیکی طور پر جواب دہ اسٹیشن سے کچھ دور کیبن میں بیٹھا ہوا اور قدرے کم رتبے والا یہ تنہا سا شخص بھی ہوتا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر اپنی طبیعت، صوابدید، زمینی حقائق اور تجربے کی بنیاد پر وہاں آتی جاتی گاڑیوں کو رواں دواں رکھنے کے لیے کچھ فیصلے کرتا ہے اور پھر ٹیلیفون کے ذریعے کیبن مین کو ضروری ہدایات دیتا ہے کہ کون سی گاڑی آرہی ہے اور اسے کس پلیٹ فارم یا لوپ لائن پر لینا ہے یا بغیر رکے براہ راست اسٹیشن سے گزارنا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: احمد شہزاد کا پاک بھارت کرکٹ میچز کے لیے انوکھا مشورہ
پٹریوں کا نظام
کیبن مین ان ہدایات کی روشنی میں سامنے لگے ہوئے برقی نقشے کو دیکھ اور سمجھ کر گاڑیوں کو مختلف لوپ لائنوں، شنٹنگ یارڈ یا پلیٹ فارم پر بھیجنے کے لیے پٹریاں اور پوائنٹ بدلتا ہے اور پھراس کے مطابق اس لائن کے لیے متعلقہ سگنل کو اَپ یا ڈاؤن کر دیتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں فضائی آلودگی میں کمی
کیبن کی مشینری
اس کام کے لیے کیبن میں کئی بڑے بڑے لیور ایک ترتیب سے لگے ہوئے ہوتے ہیں جن پر مختلف نمبر لگے ہوئے ہوتے ہیں، یہ نمبر وہاں بچھی ہوئی پٹریوں کے ہوتے ہیں جنھیں میکانکی طریقے سے اس نظام کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اسٹیشن ماسٹر کے حکم کے مطابق یہ اس عمل کا آغاز کرتا ہے اور ایک ترتیب سے سارے فیصلوں کو عملی جامہ پہناتا ہے۔
آخری لمحات کی احتیاط
یہ اتنا ذمہ داری کا کام ہوتا ہے کہ ذرا سی بے احتیاطی یا بھول چوک گاڑی کو بہت بڑے حادثے سے دوچار کر سکتی ہے۔ جب تک لیور مکمل طور پر مقفل نہیں ہو جاتا، کانٹے والا اس کو کھینچتا رہتا ہے۔ گرمیوں میںہاتھوں پر شدید پسینہ آجاتا ہے، جس سے لیور کھنچتے وقت وہ ہاتھ سے پھسل پھسل جاتے ہیں، اس لیے انھوں نے وہاں ایک تولیہ بھی لٹکا رکھا ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے ہاتھ خشک کر لے۔ کتنی دور کی سوچ تھی ان انگریزوں کی۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔