ہمارے علاقے میں راجپوتوں کے کچھ دیہات کو حکومت نے جرائم پیشہ قرار دیدیا تھا، چوریاں بہت ہوتی تھیں، مویشیوں کی چوری عام تھی۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 23
یہ بھی پڑھیں: انسٹاگرام پر سیاحت سے متعلق سٹیٹس نے دو گھروں کی چوری کا کیسے سبب بنایا
دادا کا اثر و رسوخ
میرے دادا ضلع انبالہ کے دیہات میں بڑا اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ اس کا علم مجھے پاکستان پہنچ کر بڑا ہونے پر والد صاحب کی زبانی درج ذیل واقعات سے ہوا:
واقعہ 1: راجپوت دیہات کا معاملہ
ہمارے علاقے میں راجپوتوں کے کچھ دیہات کو حکومت نے جرائم پیشہ قرار دے دیا تھا کیونکہ ان علاقوں میں چوریاں بہت ہوتی تھیں۔ غیر زمیندار غریب راجپوت اکثر ان وارداتوں میں ملوث ہوتے تھے۔ مویشیوں کی چوری عام تھی۔ میرے دادا اور دیگر راجپوتوں کو اس کا بہت قلق تھا کہ ان کی برادری کے چند دیہات کو جرائم پیشہ قرار دے دیا گیا ہے۔ میرے دادا نے ضلع کرنال کے صوفی عبدالحمید (جو پاکستان آنے پر میاں ممتاز دولتانہ منسٹری پنجاب میں وزیر زراعت و خوراک رہے) سے اس ضمن میں مشورہ کیا۔
چنانچہ اس ضمن میں طے شدہ پروگرام کے مطابق متاثرہ دیہات کے لوگوں کا ایک اجتماع کیا گیا جس میں ایس پی صاحب تشریف لائے اور اْن کے سامنے نامزد کردہ جرائم پیشہ لوگوں سے قرآن پر حلف لیا گیا کہ وہ آئندہ چوری نہیں کریں گے۔ حلف اٹھاتے ہوئے ایک دو لوگوں نے یہ بھی کہا کہ جو ہماری چوری کرے گا میں اْس کی چوری ضرور کروں گا۔ جس پر انہیں کہا گیا کہ خود اس جرم کا ارتکاب نہ کریں۔ اگر ان کے ہاں چوری ہوتی ہے تو اس بارے میں ماسٹر محمد شفیع خاں اور اْن کی نامزد کردہ کمیٹی کے ارکان کو مطلع کریں۔
اس طرح سے ایس پی کی سفارش پر محکمہ داخلہ پنجاب نے مذکورہ فیصلے کو واپس لے لیا اور ان دیہات کو امن پسند اور جرائم سے پاک قرار دے دیا گیا۔
واقعہ 2: پھول نگر کی مسجد
مقامی دیہات میں دادا جان کے اثر و رسوخ کے حوالہ سے ایک دوسرا واقعہ جو والد صاحب کی زبانی معلوم ہوا، وہ یوں ہے کہ پھول نگر والے رانا محمد پھول خاں کا انڈیا میں ننھیالی گاؤں ہمارے قریبی گاؤں میں سے ایک تھا۔ اس گاؤں میں غیر مسلم زیادہ بااثر تھے جو کمزور مقامی مسلمانوں کو گاؤں میں مسجد نہیں بنانے دے رہے تھے۔
اس گاؤں کے مسلمانوں نے دادا جان سے اس ضمن میں مشورہ کیا تو میرے دادا نے انہیں کہا کہ مسجد کے لیے اینٹیں، مزدور اور مستریوں کو تیار رکھا جائے اور تقریباً 500 لوگ ڈنڈوں کے ساتھ اگلے مہینے چاند کی چودہ تاریخ کو مسجد والی جگہ پر پہرہ دیں گے۔ چنانچہ اسی طرح کیا گیا اور مسجد تعمیر کر لی گئی۔ اگلی صبح جب نماز فجر کی اذان دی گئی تو مقامی غیر مسلم آنکھیں ملتے ہوئے دوڑتے ہوئے آئے لیکن سینکڑوں مسلمانوں کو مسلح دیکھ کر دبک گئے اور واپس چلے گئے۔
میرے والد کا کردار
میرے والد صاحب بشیر احمد خاں بینکر تھے، جو سینٹرل کوآپریٹو بینک انبالہ میں ملازم تھے۔ والد صاحب اسی بینک کی برانچز جو ضلع انبالہ کی تحصیل جگادری اور نرائن گڑھ میں تھیں میں نے انہیں بطور منیجر کام کرتے دیکھا۔
موضع دھین میں ہمارا گھر 2 حصوں پر مشتمل تھا: ایک حصہ زنان خانہ اور دوسرا مردان خانہ، جو گلی کے پار آمنے سامنے تھا۔ دونوں کے ساتھ دس دس مرلے کی چاردیواری کے ساتھ خالی پلاٹ تھے۔ عورتوں کے ساتھ والے پلاٹ میں جلانے والی لکڑیاں اور مردوں کے ساتھ والے پلاٹ میں پرالی اور بھوسہ ہوتا تھا۔
مردان خانے میں ہر وقت ایک گھوڑا اور ایک گھوڑی بندھی ہوتی تھیں، جن کی دیکھ بھال کے لیے ایک ملازم متعین تھا جس کا نام تاج محمد تھا، جو "تاجا" کے نام سے جانا جاتا تھا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔