سمندر دو مخصوص خطوں میں تیزی سے گرم ہونے لگا، ماہرین موسمیات کے انکشاف نے خطرے کی گھنٹی بجادی

سمندروں کی بڑھتی ہوئی گرمی
واشنگٹن (آئی این پی) دنیا بھر کے سمندر تیزی سے گرم ہو رہے ہیں، اور ایک نئی سائنسی تحقیق کے مطابق یہ تبدیلی دو مخصوص جغرافیائی خطوں میں نہایت واضح ہے، جو بحری ماحولیاتی نظام اور شدید موسمی حالات کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھی جا رہی ہے۔یہ تحقیق معروف موسمیاتی سائنسدان ڈاکٹر کیون ٹرنبرتھ کی قیادت میں کی گئی ہے اور اس کے نتائج معروف سائنسی جریدے جرنل آف کلائمیٹ میں شائع کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی کی درخواست ضمانتوں پر فیصلہ کب سنایا جائیگا؟ عدالتی عملے کااہم بیان
تحقیقی نتائج
تحقیق کے مطابق شمالی اور جنوبی نصف کرے میں تقریبا 40 ڈگری عرض بلد پر واقع دو خطے سمندری گرمی میں نمایاں اضافے کا مرکز بن چکے ہیں۔جنوبی نصف کرے میں یہ پٹی 40 سے 45 ڈگری جنوب کے درمیان واقع ہے، جہاں نیوزی لینڈ، تسمانیا اور ارجنٹینا کے مشرقی بحر اوقیانوس کے علاقوں میں تیز ترین حدت دیکھی گئی۔ دوسری جانب شمالی نصف کرے میں 40 ڈگری شمال کے قریب، خاص طور پر امریکہ کے مشرقی ساحل (شمالی بحر اوقیانوس) اور جاپان کے مشرقی پانیوں (شمالی بحرالکاہل) میں شدید گرم ہونے کی علامات پائی گئی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پولیس یونیفارم کی تضحیک کا معاملہ، ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کے خلاف مقدمہ درج
ماہرین کی آراء
یونیورسٹی آف آکلینڈ اور نیشنل سینٹر آف ایٹموسفیرک ریسرچ (NCAR) سے وابستہ ڈاکٹر ٹرنبرتھ کا کہنا ہے کہ یہ ایک انتہائی حیرت انگیز مشاہدہ ہے، جو ماحولیاتی ڈیٹا میں واضح انداز میں ابھر کر سامنے آیا ہے۔تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ سمندر کی گرمی نہ صرف بحری ماحولیاتی نظام کو متاثر کرتی ہے بلکہ فضا میں نمی کی سطح بڑھاتی ہے، جو کہ ایک طاقتور گرین ہاس گیس ہے، اور اس کے نتیجے میں شدید بارشیں اور موسمیاتی شدت میں اضافہ ہوتا ہے۔2005 سے اب تک یہ حرارتی پٹیاں جیٹ اسٹریم کے قطب کی جانب سرکنے اور سمندری دھاراں میں تبدیلی کے ساتھ وجود میں آئی ہیں۔ سائنسدانوں نے 2000 سے 2023 کے درمیان سمندر کے 2000 میٹر گہرائی تک کے ڈیٹا کو ایک ڈگری عرض بلد کے پیمانے پر پرکھا، اور 2000-2004 کی بنیاد پر گرمی کی شدت (زیٹا جولز میں) کا موازنہ کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعہ، سوئٹزرلینڈ نے بڑی پیشکش کردی
ال نینو اور قدرتی موسمی پیٹرن
تحقیق کے مطابق اگرچہ خط استوا کے آس پاس یعنی 10 ڈگری شمال سے 20 ڈگری جنوب تک بھی قابل ذکر حدت بڑھی ہے، لیکن وہاں ال نینو اور سدرن اوسیلیشن جیسے قدرتی موسمی پیٹرن کے باعث یہ تبدیلی واضح طور پر نمایاں نہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ 20 ڈگری عرض بلد کے آس پاس واقع سب ٹراپیکل علاقوں میں کسی حدت میں اضافے کے شواہد نہیں ملے۔تحقیقی ٹیم میں ڈاکٹر لیجنگ چینگ اور یوئنگ پین (چائنیز اکیڈمی آف سائنسز)، جان فاسولو (NCAR)، اور مائیکل مئیر (یونیورسٹی آف ویانا و یورپی ماڈریٹ ویڈر فورکاسٹ سینٹر) شامل تھے۔
آنے والی تبدیلیوں کی شدت
ڈاکٹر ٹرنبرتھ نے اس بات پر زور دیا کہ انسانی سرگرمیوں سے خارج ہونے والی گرین ہاس گیسیں موسمیاتی تبدیلی میں اہم کردار ادا کر رہی ہیں، اور اس کی پیدا کردہ حرارت کا بڑا حصہ سمندروں میں جذب ہو جاتا ہے، تاہم انھوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ اس رجحان میں قدرتی تغیر کا عنصر بھی شامل ہو سکتا ہے۔یہ تحقیق ایک مرتبہ پھر ثابت کرتی ہے کہ زمین کا درجہ حرارت بڑھنے کا سب سے خاموش لیکن مہلک شکار ہمارے سمندر بن رہے ہیں۔