اعجاز چودھری پر سازش کا الزام ابھی ثابت نہیں ہوا، سپریم کورٹ نے ضمانت منظوری کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا
سپریم کورٹ کا فیصلہ
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)سپریم کورٹ نے قرار دیا ہے کہ 9 مئی کو پی ٹی آئی کے سینیٹر اعجاز احمد چودھری کے خلاف مجرمانہ سازش کا الزام استغاثہ کی جانب سے ٹرائل میں ثابت کیا جانا ابھی باقی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: 24 اکتوبر کو عام انتخابات تھے، اللہ نے میرے گھر دوسرا چاند اتار دیا،”کاکا آ جا۔ کاکا آ جا“اسکی آواز بشارت تھی، دونوں بچے جڑواں بچوں کی طرح پالے.
ضمانت کی منظوری
نجی ٹی وی چینل ایکسپریس نیوز کے مطابق جسٹس نعیم اختر افغان کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے 2 سال سے قید اعجاز چوہدری کی ضمانت منظوری کا تحریری حکم نامہ جاری کر دیا۔ جسٹس نعیم افغان نے فیصلے میں قرار دیا کہ استغاثہ نے ابھی تک ایف آئی آر درج کرنے میں تین دن اور شکایت کنندہ کی طرف سے ضمنی بیان دینے میں تقریباً ایک ماہ کی تاخیر کی وضاحت نہیں کی۔
یہ بھی پڑھیں: فلسطینیوں سے اظہار یکجہتی، آج ملک بھر میں ریلیاں اور جلوس نکالے جائیں گے
مقدمے کی تفصیلات
ریکارڈ سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ درخواست گزار کو 12 مئی 2023 کو تھانہ سرور روڈ، میں درج ایف آئی آر میں نامزد نہیں کیا گیا تھا، اسے 10 جون کو سوشل میڈیا مواد کی بنیاد پر ضمنی بیان میں نامزد کیا گیا، دو سال گزرنے کے باوجود اس کی سچائی کا تعین ہونا ابھی باقی ہے۔ قانون کے طے شدہ اصولوں کے مطابق بطور سزا ضمانت کو روکا نہیں جا سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: دن کے وقت سیاحوں کی آمد و رفت، شام ہوتے ہی سناٹا، کھیت اور کھجوروں کے جھنڈ، فرعونی مجسمے
مزید انکوائری کی ضرورت
یہ مقدمہ ابھی مزید انکوائری کے زمرے میں آتا ہے۔ درخواست گزار ضمانت کا اس لیے بھی حقدار ہے کیونکہ اسی مقدمے میں شریک ملزم امتیاز محمود کی بھی ضمانت منظور ہو چکی ہے۔ عدالت نے درخواست گزار کو ایک لاکھ روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کا حکم دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور میں سموگ کے باعث جمعہ اور ہفتہ کو سکول، کالجز اور یونیورسٹیز بند کرنے کی تجویز
سروس ٹریبونل کا فیصلہ
دریں اثنا جسٹس منصور علی شاہ کی سربراہی میں بنچ نے سروس ٹریبونل کا فیصلہ کالعدم قرار دیتے ہوئے محکمانہ کمیٹی کو خاتون فزیکل ایجوکیشن ٹیچر کی گریڈ 17 میں ترقی زیر غور لانے اور ایک ماہ میں فیصلہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
سول بیوروکریسی کا کردار
عدالت نے فیصلے میں زور دیا کہ سول بیوروکریسی کو سیاسی مداخلت سے آزاد رہنا چاہیے۔ اسے ریاست کے مضبوط ڈھانچے کے طور پر کام کرنا چاہیے نہ کہ اقتدار میں موجود پارٹی کا ربڑاسٹمپ بن کر رہے، جسٹس منصور علی شاہ نے 7 صفحات پر مشتمل فیصلے میں کہا کہ سیاسی قیادت کے برعکس جو انتخابی ادوار کے ساتھ بدلتی رہتی ہے۔








