ایک ہی طرح کے ریلیف کیلئے مختلف فورمز پر کارروائی نہیں ہو سکتی: چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ

لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ
لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن) چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے قرار دیا کہ ایک ہی طرح کے ریلیف کیلئے دو مختلف فورمز پر کارروائی نہیں ہو سکتی۔
یہ بھی پڑھیں: اسلام آباد کے نجی ہوٹل سے جوان لڑکی کی لاش ملنے کے کیس میں حیران کن انکشاف
درخواست کی تفصیلات
نجی ٹی وی چینل دنیا نیوز کے مطابق چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ جسٹس عالیہ نیلم نے شہری منیر احمد کی درخواست پر 4 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کر دیا، درخواست گزار کی جانب سے اظہر صدیق ایڈووکیٹ نے دلائل دیئے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا وفد مولانا فضل الرحمان کی رہائشگاہ پر پہنچ گیا
عدالتی برہمی
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے غیر ضروری درخواست دائر کرنے پر سخت برہمی کا اظہار کیا اور قرار دیا کہ یہ درخواست پہلے ہی اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر اور مسترد ہو چکی ہے۔ عدالتی وقت بہت قیمتی ہے جو کہ سنجیدہ مسائل کیلئے وقف ہونا چاہیے۔ ایسی درخواستیں بغیر کسی ذمہ داری، تحمل اور قانونی طریقہ کار کے دائر کر دی جاتی ہیں، جس کی وجہ سے عدالتیں فضول نوعیت کے کیسز سے بھری پڑی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی کا لندن میں وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے احتجاج
مفاد عامہ کی درخواستوں کا سوء استعمال
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے فیصلے میں لکھا کہ ہر چیز پر مفاد عامہ کی درخواست دائر کی جاتی ہے، ایسی درخواستیں زیادہ تر شہرت کیلئے دائر کی جاتی ہیں۔ ایسا عمل مفاد عامہ کی درخواستوں کی ساکھ کو تباہ کرنے کے مترادف ہے، جس سے عدالت کا وقت فضول درخواستوں کو سننے میں ضائع ہوتا ہے، بصورت دیگر یہ عدالت ایک خاموش تماشائی بن جائے گی جہاں عوام کا وقت اور وسائل ضائع ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: بینک آف انگلینڈ نے شرح سود میں کمی کا اعلان کردیا
اسلام آباد ہائیکورٹ کی پہلے والی درخواست
فیصلے کے مطابق موجودہ درخواست میں استدعا کی گئی کہ پی این آئی ایل کی ایس او پیز کو کالعدم قرار دیا جائے۔ سرکاری وکیل نے کہا کہ درخواست گزار منیر احمد نے ایسی ہی ایک درخواست اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر کی، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔ وکیل کے مطابق درخواست گزار نے لاہور ہائیکورٹ سے اس حقیقت کو چھپایا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہم یوتھیے ہوں یا پٹواری پاکستان پر بات آئی تو ہم سب ایک ہیں پاکستانیوں کا مودی کو واضح پیغام
عدالت میں دلائل کا جائزہ
فیصلے میں کہا گیا کہ ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے تسلیم کیا کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست میں وکیل تھے، لیکن یہ بتانے میں قاصر رہے کہ انہوں نے موجودہ درخواست میں اسلام آباد ہائیکورٹ کی درخواست کا ذکر کیوں نہیں کیا۔ ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں دائر درخواست کے کسی بھی عدالتی حکم سے لاعلم ہیں، حالانکہ ان کو حکم سے آگاہ کیا گیا تھا۔
عدالت کا اختتام
عدالتی فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ ایڈووکیٹ اظہر صدیق نے بتایا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا حکم سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں کیا گیا۔ عدالت نے تمام ریکارڈ کا جائزہ لینے کے بعد اسلام آباد ہائیکورٹ میں پہلے سے اسی درخواست کے دائر ہونے کے باعث لاہور ہائیکورٹ نے درخواست ناقابل سماعت قرار دی۔ عدالت نے تمام دلائل کا جائزہ لینے کے بعد اس درخواست کو خارج کر دیا۔