حالات بگڑنا شروع ہو گئے، بلوائیوں کے حملوں کی خبریں آ رہی تھیں، گاؤں کے سکھوں نے کہا ہمیں مارے بغیر تم مسلمانوں تک نہیں پہنچ سکتے۔

مصنف: رانا امیر احمد خاں

قسط: 27

بچے کی خواہش

میں بچپن سے ہی وقت پر سکول جانے کا شوق رکھتا تھا۔ ایک صبح سکول جانے کے وقت شدید بارش شروع ہوئی۔ مگر میں سکول جانے کے لئے تیار ہو گیا۔ گھر والوں نے منع کیا کہ آج سکول مت جاؤ، مگر میں بضد تھا کہ آندھی ہو یا بارش میں سکول سے چھٹی نہیں کروں گا۔ لہٰذا مجھے چھتری دے کر سکول بھیجا گیا۔ سکول سے گھر کا فاصلہ تقریباً ایک فرلانگ تھا۔ اس دن سکول وقت پر پہنچنے والا میں پہلا بچہ تھا۔ سکول وقت پر پہنچنے پر میرے اْستاد بہت خوش ہوئے اور مجھے شاباش دی۔ یہی وقت کی قدر اور پابندیئ وقت زندگی بھر میرے ساتھ رہی۔

1945-46 کے انتخابات

1945-46ء کا زمانہ میرے ذہن میں دھندلا سا ہے۔ مجھے صرف اتنا یاد ہے کہ دادا کے پاس آنے جانے والوں میں اضافہ ہو گیا تھا۔ یہ لوگ آپس میں ووٹ پڑیں گے کی باتیں کرتے تھے۔ اْس وقت مجھے نہیں معلوم تھا کہ ووٹ کیا ہوتے ہیں اور الیکشن کیا ہوتا ہے۔ تھوڑا بڑا ہونے پر مجھے بزرگوں سے پتا چلا کہ پاکستان کے لئے ووٹ پڑے تھے اور مسلمانوں کی انبالہ سیٹ سے قائد اعظمؒ کے نامزد کردہ مسلم لیگی اْمیدوار سردار شوکت حیات خان کو کامیاب کروایا گیا تھا۔

ہمارے گاؤں پر بلوائیوں کے حملے

جون کے آغاز میں تقسیم ہند کا اعلان ہوا، جس کے بعد حالات بگڑنا شروع ہو گئے اور بطور ایک 6 سالہ بچے کے میں نے اپنے بڑوں کے چہروں پر سوچ بچار کے آثار دیکھے۔ تنہا آدمی کا ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں جانا مشکل ہو گیا۔ کیونکہ راستے میں مار دئیے جانے کا خطرہ ہوتا تھا لہٰذا والد صاحب کا بینک ملازمت کے لئے انبالہ جانا بند ہو گیا۔ جوں جوں وقت گزر رہا تھا۔ خطرات بڑھتے جا رہے تھے۔ ہندو، سکھ، بلوائیوں کے مختلف دیہات پر حملوں کی خبریں مسلسل آ رہی تھیں۔ ہمارے گاؤں پر بھی بلوائی دو مرتبہ حملہ کرنے آئے۔ جنہیں گاؤں کے سکھوں نے ہمارے بزرگوں کے ساتھ عزت احترام والے رشتہ کے باعث گاؤں سے باہر ہی روک دیا کہ ہمارے ہوتے ہوئے تم ہمارے گاؤں کے مسلمانوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے۔ جب بھی حملہ آوروں کے آنے کی خبر ملتی تو ہمارے گاؤں کی مسلمان خواتین اور بچوں کو مقامی گوردوارے میں پہنچا دیا جاتا اور ہمارے بالغ مرد گھروں پر موجود رہتے۔ جب خطرہ ٹل جاتا تو بچے اپنی ماؤں، پھپھیوں کے ساتھ گھروں کو واپس آ جاتے۔ تیسری بار غیر مسلم بلوائی جنہیں آج دہشت گرد کہنا زیادہ مناسب ہو گا مصمم ارادے کے ساتھ آئے کہ ہم قتل و غارت اور لوٹ مار کیے بغیر نہیں جائیں گے تو ہمارے گاؤں کے سکھوں نے کہا کہ ہمیں مارے بغیر تم گاؤں کے مسلمانوں تک نہیں پہنچ سکتے۔ اللہ کا خاص کرم اور ہمارے بزرگوں کا گاؤں والوں سے حسنِ سلوک تھاکہ ہم بلوائیوں کے حملے سے محفوظ رہے۔ کیونکہ بلوائی تیسری بار بھی بغیر کوئی کارروائی کے ناکام واپس گئے۔

(جاری ہے)

نوٹ

یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...