ہماری عادت ہے کہ کام کرتے نہیں اور جب مشکل میں پڑ جاتے ہیں تو مسئلہ کسی اور پر ڈال دیتے ہیں، میرے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا، فائدہ اٹھا کر ایک حماقت کی

مصنف کا تعارف
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 160
یہ بھی پڑھیں: پاکستان کسی بھی قسم کی مہم جوئی کا بھرپور جواب دینے کیلئے تیار ہے: سیکرٹری خارجہ
پہلا واقعہ: دوسرے کے کندھے پر بندوق
ہمارا وطیرہ ہے کہ کام ہم کرتے نہیں اور جب پھنسنے لگتے ہیں تو کوشش کرکے مدعا کسی اور پر ڈال دیتے ہیں۔ ایسا ہی کچھ میرے ساتھ بھی ہوا۔ دفتر جوائن کئے ابھی چند دن ہی ہوئے تھے کہ ڈائریکٹر گوجرانوالہ ڈویثرن خالد سلطان صاحب (بعد میں مختلف محکموں کے سیکرٹری بھی رہے، چیف سیکرٹری آزاد کشمیر بھی اور وفاقی سیکرٹری کے عہدے سے ریٹائر ہوئے) لالہ موسیٰ مرکز ترقیاتی سکیمز کا جائزہ لینے آ رہے تھے۔ وہ سی ایس پی اور بڑے دبنگ افسر تھے۔ ملک عظیم کو بھی انہوں نے بلا رکھا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خصوصی افراد میں معاون آلات کی فراہمی کی تقریب، صوبائی وزیر سہیل شوکت بٹ کی خصوصی شرکت
دورہ کی تفصیلات
مقرہ دن وہ 11 بجے پہنچ گئے۔ راجہ یعقوب اسٹنٹ ڈائریکٹر اور محمد سرور اسٹنٹ انجینئر بھی ساتھ تھے۔ وہ ٹھکریاں یونین کونسل میں ایک زیر تعمیر سولنگ دیکھنے کے لیے نکلے۔ مجھے کیا معلوم کہ سولنگ کیا ہوتی ہے۔ وہاں جا کر پتہ چلا کہ کم خرچ پکا راستہ جو "کھنگراینٹ" سے بنایا جاتا تھا سولنگ کہلاتا ہے۔ یہ راستہ specifications کے مطابق تعمیر نہ ہو رہا تھا۔ کیمبر بھی نہیں رکھا گیا تھا۔ ڈائریکٹر صاحب بہت ناراض ہوئے، ملک عظیم سے پوچھا؛ "سولنگ ایسے تعمیر کی جاتی ہے کیا؟" اسٹنٹ انجینئر سرور (یہ پروموٹی افسر تھے) عظیم کی جگہ بولے؛ "سر! سولنگ ٹھیک ہی بنی ہے۔" بس پھر کیا تھا، ڈائریکٹر صاحب کا پارہ اونچا ہو گیا اور خوب سنائیں دونوں کو۔
یہ بھی پڑھیں: کاجول نے اجے دیوگن اور شاہ رخ خان کے تعلقات پر خاموشی توڑ دی
راستے کی تعمیر میں خامیاں
ملک عظیم میری طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا؛ "سر! پراجیکٹ منیجر تو یہ ہیں۔" وہ بولے؛ "کچھ شرم کرو، اسے آئے تو ابھی بمشکل چار پانچ دن ہوئے ہیں، تم کہہ رہے ہو اس سے پوچھو۔" راجہ یعقوب سے کہا؛ "راجہ صاحب فیلڈ میں نکلیں۔ ترقیاتی کام چیک کریں۔ آئندہ ایسی سکیم میری نظر میں آئی تو ٹیکنیکل لوگوں کے ساتھ ساتھ آپ بھی ذمہ دار ہوں گے۔ ان دونوں کو بتائیں سولنگ کیسے لگائی جاتی ہے۔ عظیم تمہیں میں وارنگ دے رہا ہوں۔" میں نے سولنگ کی تعمیر کے حوالے سے ان کی observations پلے باندھ لی تھیں۔ نوکری کے ابتدائی چند دنوں میں ڈائریکٹر کا دورہ میرے لیے بڑا learning experience تھا۔
یہ بھی پڑھیں: عالمی بینک نے پاکستان کے لیے 10 کروڑ 80 لاکھ ڈالر قرض کی منظوری دے دی
دوسرا واقعہ: لالہٰ موسیٰ آکیڈمی
ایسا ہی ماحول لالہٰ موسیٰ آکیڈمی کا چوہدری ظہور صاحب کے اسلام آباد جانے کے بعد ہوا جب ان کی جگہ ریاض تارڑ سینئر انسٹرکٹر تعینات ہوئے۔ منفی سوچ کے یہ باریش انسان تھے۔ موقع کی تلاش میں رہتے کہ کندھا کسی کا ہو، بندوق ان کی اور نشانہ پرنسپل اکیڈمی غلام محمد۔ مجھ سے بھی انہوں نے میری معصومیت کا فائدہ اٹھا کر ایک حماقت کرائی تھی جس کا ذکر آنے والے صفحات میں ہوگا۔
یہ بھی پڑھیں: ایرانی جج پر سفاکانہ حملہ، دفتر جاتے ہوئے چاقو کے وار سے قتل
تیسرا سرپرائز: پائلٹ ایریا کی کہانی
پراجیکٹ منیجر لالہٰ موسیٰ کی سرکاری رہائش دفتر سے ملحق ہی تھی۔ لالہٰ موسیٰ بارانی ایریا ہے اور یہاں کسانوں کی مدد اور بہتر فی ایکڑ پیداوار حاصل کرنے کے لیے "پائلٹ ایریا" قائم کیا گیا تھا جہاں سے کسان ٹریکٹر، ویٹ تھریشر، بیج کھاد کے لیے قرضہ اور مختلف قسم کے ہل ارزاں نرخوں پر حاصل کرسکتے تھے۔ یہ بڑا کامیاب سنٹر تھا۔ نہ جانے ہر سرکاری سکیم کی طرح بنا کسی سوچے اس سنٹر کو کیوں بند کر دیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف سے سینیٹر عرفان صدیقی کی ملاقات
خاتمہ اور موجودہ حالات
یہاں کی مشینری بھی گل سڑ کر زنگ آلود ہوگئی اور ٹپکتے سٹور کی زینت بنا کر ناکارہ کر دی گئی۔ میری تعیناتی سے پہلے ہی یہ مشینری بیکار ہو چکی تھی۔ یہ رہائش گاہ اور اس کے ملحقہ کوارٹر اسی دفتر کے ملازمین کے لئے تھے۔ ایک کوارٹر میں غلام محمد رہتا تھا، دوسرے میں رفیق نائب قاصد اپنے بچوں کے ساتھ جبکہ باقی 4 کوارٹر خالی اور خستہ حال تھے۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔