پاکستان بھارت کو کب اور کیسے جواب دے گا؟

کشیدگی کی شدت
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی خطرناک حد تک بڑھ چکی ہے اور دونوں ممالک ایک ممکنہ تصادم کے دہانے پر کھڑے ہیں۔ پاکستانی فوج کی جانب سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ وہ بھارت کو اپنے منتخب کردہ وقت اور مقام پر جواب دے گی، جس سے صورتحال مزید سنگین ہو گئی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ایسا جواب دینا چاہتا ہے جس سے بھارت کو نقصان ہو مگر کشیدگی مکمل جنگ کی سطح تک نہ پہنچے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی احتجاج کے تناظر میں گرفتار 8 کم عمر بچوں کی ضمانتیں منظور
ماہرین کا تجزیہ
الجزیرہ کے مطابق یونیورسٹی آف البینی کے اسسٹنٹ پروفیسر کرسٹوفر کلاری نے کہا کہ جنگ ابھی دور ہے، لیکن ہم اس کے کہیں قریب تر آ چکے ہیں۔ ان کے مطابق دونوں ممالک کی جانب سے ایک دوسرے کے فوجی اڈوں کو نشانہ بنانا ممکنہ طور پر اگلا قدم ہو سکتا ہے۔ کلاری نے مزید کہا کہ بھارت کی جانب سے پاکستانی ریڈار سسٹمز پر ڈرون حملے اور پاکستان کی جانب سے بھارتی فوجی تنصیبات پر میزائل و ڈرون حملوں کی اطلاعات اس کشیدگی کا ثبوت ہیں۔ ان کے بقول اگلے 24 گھنٹوں میں مزید حملوں کا خدشہ ہے اور جانی نقصان میں اضافہ ہو سکتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سپر لیگ کے آئندہ ایڈیشن میں کتنی ٹیمز حصہ لیں گی؟ اعلان ہوگیا
2019 کے مقابلے میں موجودہ صورتحال
نیو لائنز انسٹیٹیوٹ واشنگٹن کے سینئر ڈائریکٹر کامران بخاری نے بھی اس صورتحال کو 2019 کے مقابلے میں زیادہ خطرناک قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت ایک "کشیدگی کا ایسا چکر جو مسلسل شدت اختیار کرتا جائے" میں پھنس چکا ہے، جہاں پاکستان کے کسی بھی اقدام کے جواب میں بھارت اپنی شدت بڑھائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: کنگنا رناوت کو ایک لاکھ روپے کا بجلی کا بل ملنے کی وجہ سامنے آ گئی
پاکستان کی حکمت عملی
انہوں نے کہا کہ پاکستانی فوج کی یہ پالیسی کہ وہ جواب اپنے وقت پر دے گی، اس بات کی عکاسی کرتی ہے کہ وہ ایسی حکمت عملی پر غور کر رہے ہیں جس سے کشیدگی کو مکمل جنگ میں تبدیل ہونے سے روکا جا سکے۔ تاہم اس کا انحصار پاکستان کی صلاحیتوں اور عملی مجبوریوں پر ہوگا۔
عوامی اور سیاسی دباؤ
عالمی مشاورتی ادارے کنٹرول رسکس سے وابستہ عرسلہ جاوید کے مطابق پاکستانی فوج پر عوامی اور سیاسی دباؤ ہے کہ وہ ایک مضبوط اور ٹھوس جواب دے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی جانب سے بھارتی فوجی اثاثوں پر درست نشانے والے حملے متوقع ہیں، جن کا مقصد شہری جانی نقصان سے گریز کرتے ہوئے بھارت کو واضح پیغام دینا ہو گا۔ ان کے مطابق ایسے حملے کشیدگی کو محدود رکھتے ہوئے مؤثر جواب کا ذریعہ ہو سکتے ہیں。