سب سے تعارف ہوا یہ پہلی ملاقات تھی، ہم سب اساتذہ کی بڑی عزت اور قدر کرتے تھے گو ان کے پڑھانے اور سکھانے کے حوالے سے ہمارے تحفظات تھے۔

مصنف کی پہلی ملاقات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 162
ہم 16 افسران کی یہ پہلی ملاقات تھی۔ میں پہلے ماسوائے قاری ضیاء کے کسی اور سے نہیں ملا تھا۔ سب سے تعارف ہوا۔ ہوسٹل میں 2 افسران کے لیے ایک کمرہ مختص تھا۔ مجھے اور آفتاب جوئیہ کو کمرہ نمبر 6 الاٹ ہوا۔ قاری ضیاء اور ذوالفقار حیدر کو کمرہ نمبر 5۔ طاہر ضیا اور محمد الیاس کو کمرہ نمبر 8۔ حفیظ الرحمان راحت، مشتاق احمد (یہ دونوں روم میٹ تھے)، محمد افضل چونترہ (یہ چونترہ ضلع ٹوبہ ٹیک سنگھ کا رہنے والا تھا)، شوکت سعید، غلام مصطفےٰ بھٹی (جیلر) اور سعید علوی، رانا نسیم، روحیل مرزا، خالد نذیر۔ یہ بیج 25 سال کے وقفے کے بعد 1988ء میں پہلی بار بذریعہ پنجاب پبلک سروس کمیشن سلیکٹ ہو کر آیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئی فوج یا پولیس نہیں، پھر بھی یہ دنیا کے پرامن ترین ممالک میں شامل ہیں
افسران کی تعلیم اور پس منظر
ان افسران میں سے کچھ ایم اے، کچھ ایم اے ایل ایل بی، کچھ ایم بی اے تھے جبکہ میں بی اے ایل ایل بی تھا۔ ان میں سے 4 رانا نسیم پرویز محکمہ ہاؤس بلڈنگ، راحت اور مشتاق محکمہ تعلیم جبکہ مصطفےٰ بھٹی اسٹنٹ جیلر تھا اور گروپ میں ”جیلر بھٹی“ کے نام سے مشہور ہوا۔ اس کی چال ڈھال سبھی جیلروں جیسی تھی۔ ریٹائر ہو کر امریکہ میں امام مسجد ہے۔ میرے کچھ بیج میٹ چپل پہن کر تربیت کے لیے آئے لیکن جب وہ ریٹائر ہوئے تو بڑی زمینوں اور جائیدادوں کے مالک تھے۔ اللہ نے انہیں خوب نوازا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: تفصیلات طلب: پی ٹی آئی جلسہ میں شامل ریسکیو 1122 گاڑیوں کی معلومات
ہوسٹل کی حالت
نواڑ کے پلنگ اور۔۔؛ اس زمانے میں اکیڈمی کے ہوسٹل میں نواڑ کے پلنگ تھے، کمیونٹی باتھ رومز تھے، گرمی میں کچھ دیر کے لیے بجلی جاتی تو گرمی بہت ستاتی تھی۔ ہوسٹل میں طعام کے لیے افسران کو خرچہ اپنی جیب سے برداشت کرنا ہوتا تھا جو 100 روپیہ ہفتہ تھا۔ میس کمیٹی منیو تیار کرتی اور ہوسٹل کا باورچی یتیم علی لذیز کھانا تیار کرتا تھا۔ صرف ایک کلاس روم تھا جس میں بید کی بنی کرسیاں تھیں۔ کلاس روم کا بلیک بورڈ ہائی سکول کی جماعت جیسا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: شیخوپورہ: موٹر وے پر بس اور مسافر وین کے تصادم میں 5 افراد ہلاک
فیکلٹی اور انسٹرکٹرز
فیکلٹی انہی فیلڈ افسران پر مشتمل تھی جو کبھی فیلڈ فورمیشن کا حصہ رہے تھے ماسوائے پرنسپل غلام محمد صاحب اور سینئر انسٹر کٹر چوہدری ظہور الحق صاحب کے۔ فیلڈ سے لوگ یا تو فیلڈ کی activities سے تنگ آ گئے تھے یا نئے چیلنجز سے گھبرا کر یہاں پناہ گزین ہوئے تھے۔ پناہ گزین رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ انہیں پڑھانے کا کوئی تجربہ نہ تھا بس اپنے تجربات ہی شئیر کرتے تھے۔ یہ انسٹر کٹر کہلاتے تھے، ان میں فیصل آباد کے رہنے والے چوہدری ظہور الحق منفرد شخصیت، سمجھ دار، ذھین، محنتی اور قابل تھے۔ پرنسپل غلام محمد بارعب انسان تھے اور سبھی ان سے ڈرتے تھے۔ وہ اکیلے ایک طرف تھے جبکہ باقی انسٹر کٹرز کا اپنا گروپ تھا لیکن کیا مجال کہ کوئی بھی پرنسپل صاحب کے سامنے بولنے کی جرأت کر سکے۔
یہ بھی پڑھیں: نوجوان کرکٹر میچ کے دوران دل کا دورہ پڑنے سے چل بسا
یادیں اور خیالات
چوہدری ظہور صاحب ہماری ٹریننگ ختم ہونے کے چند ہفتے بعد ڈائریکٹر ریسرچ این سی آر ڈی (نیشنل سنٹر برائے رولر ڈولپمنٹ) اسلام آباد چلے گئے تھے اور اپنی ملازمت کے ایک سال بعد فوت ہو گئے۔ اللہ مغفرت کرے آمین۔ ہم سب ان اساتذہ کی بڑی عزت اور قدر کرتے تھے گو ان کے پڑھانے اور سکھانے کے حوالے سے ہمارے تحفظات تھے۔ مجھے یاد ہے ایک سوال کے جواب میں ہمارے ایک انسٹرکٹر صاحب نے جواب دیا تھا؛ ”جو میں نے بتایا وہ بھی ٹھیک تھا اور جو آپ کہہ رہے ہیں وہ بھی ٹھیک ہے۔“ حالانکہ قانون میں ایک بات ہی ٹھیک ہوتی ہے۔
نوٹ
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔