صبح سویرے کمیونٹی باتھ روم استعمال کرنے کے لیے کئی بار انتظار کرنا پڑتا ہے، روز نیا کپتان ہوتا ہے اور ہارنے والا کپتان جیتنے والی ٹیم کو ٹھنڈی ٹھار بوتل پلاتا ہے۔

مصنف کا تعارف
شہزاد احمد حمید
قسط: 163
یہ بھی پڑھیں: کانگریس نے پہلگام حملے کو بھارتی انٹیلی جنس کی ناکامی قرار دے دیا
لیٹرین میں نیند
صبح سویرے کمیو نٹی باتھ روم استعمال کرنے کے لئے کئی بار بڑا انتظار بھی کرنا پڑتا تھا۔ الیاس ہمیشہ دیر سے اٹھتا اور پھر لیٹرین میں جا کر سو جاتا تھا۔ اس کی اس عادت سے سبھی بہت تنگ تھے۔ پھر یہ معمول بن گیا وہ لیٹرین جاتا قاری کو کندھے پر اٹھا کر دروازے تک اونچا کرتے وہ دروازے کی چٹخنی کھولتا اور ہم سب اس نظارے پر ہنستے، الیاس کی آنکھ کھل جاتی وہ گالیاں بکتااور ہم مزید لطف اندوز ہوتے۔ ہفتہ بھر کی ہماری کوشش سے اس کا لیٹرین میں سونا چھوٹ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: متنازعہ چینلز کا معاملہ، وزیراعلیٰ سندھ اسلام آباد پہنچ گئے، وزیراعظم سے ملاقات متوقع
ڈائریکٹر کی کہانی
بعد میں وہ ڈائریکٹر مقامی حکومت سرگودھا ڈویثرن ریٹائر ہوا۔ دوران سروس وہ سرگودھا میں ہی پوسٹڈڈ رہا تھا ماسوائے ایک دفعہ کے جب اس کی ٹرانسفر ڈی جی خاں ہوئی تھی۔ اس نے مجھے فون کر کے کہا؛ "لالہ! ڈی جی خاں تبادلہ ہوا ہے، جانا کیسے ہے؟" میں مسکرایا اور کہا؛ "بچو: ڈائیو بس کے اڈے جانا وہ تمھیں ڈی جی خاں پہنچا دیں گے۔" 2013ء کے الیکشن کروا کر وہ واپس سرگودھا چلا آ یا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: انسٹاگرام پر بھارتی اداکارہ کی بولڈ تصاویر لائیک کرنے پر کوہلی کو وضاحت دینا پڑ گئی
اکیڈمی میں کرکٹ
لالہ موسیٰ اکیڈمی شہر سے باہر تھی۔ سر شام ہی شہر سے رابطہ ختم ہو جاتا تھا نہ کوئی تانگہ چلتا تھا اور نہ ہی ویگن۔ بوریت محسوس ہوتی۔ اس بوریت ختم کرنے کے لئے ہم روزانہ عصر اور مغرب کے درمیان ہوٹل کے سامنے والے لان میں کرکٹ کھیلنے کا پلان بنا لیا۔ ہم میں چار لوگ اچھی کرکٹ کھیلتے تھے لہٰذا دو دو دونوں ٹیموں میں شامل ہو جاتے اور روز نیا کپتان ہوتا اور ہارنے والا کپتان جیتنے والی ٹیم کو ٹھنڈی ٹھار بوتل پلاتا۔
یہ بھی پڑھیں: نادرا نے شہریوں کے لئے اہم ہدایات جاری کردیں
دوستی کے لمحات
بوتل پینے کے لئے اکیڈمی سے ملحقہ روشن آراء بیگم کے پٹرول پمپ پر نیاز کے کھوکھے جاتے تھے۔ وہاں کچھ دیر گپ شپ ہوتی اور مغرب کی نماز کے لئے مسجد چلے آتے تھے۔ دو تین افسران ہی نمازی تھے۔ قاری، آفتاب اور ذوالفقار اسلامیہ یونیورسٹی بہاول پور کے ہم جماعت اور بے تکلف دوست تھے۔ چند دنوں میں ہم سب بھی بہت بے تکلف ہو گئے اور یہ بے تکلفی آج بھی پہلے دن والی ہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: صدر کو دوسرے اعتراض کا آئینی استحقاق حاصل نہیں، ایکٹ بن چکا تو گزٹ نوٹیفکیشن کیوں نہیں ہورہا؟ مولانا فضل الرحمان
آفتاب جوئیہ کی داستان
آفتاب جوئیہ پرویز الٰہی صاحب کا سٹاف افسر رہا جب وہ وریز بلدیات تھے۔ اسی دوران اس نے پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹریٹ کی اور پھر وہ ڈاکٹر آفتاب جوئیہ بن کر محکمہ بلدیات کو چھوڑا اور پنجاب اسمبلی میں بطور ڈپٹی سیکرٹری چلا گیا اور ترقی کرتے ہوئے سیکرٹری اسمبلی بن گیا اور پھر اچانک ایک روز اطلاع ملی کہ وہ اپنے خالق حقیقی سے جا ملا۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ وہ میرا بے تکلف دوست، میرا روم میٹ، نفیس، خوش پوش اور سلجھا ہوا انسان تھا۔ اللہ اس کے درجات بلند کرے آمین۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔