بھارت سے پاکستان آنے والے مہاجرین کو پہلے چند سال نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا، جڑانوالہ پہنچے تو چولہا جلانے کے لیے لکڑیاں نہ تھیں

مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 32
یہ بھی پڑھیں: کیا ٹیپو سلطان اپنے مخالفین پر شدید تشدد کے حامی تھے؟
جڑانوالہ میں میرا لڑکپن
بھارت سے پاکستان بے سرو سامانی کی حالت میں آنے والے مہاجرین کو پہلے چند سال نامساعد حالات کا سامنا کرنا پڑا۔ رسول نگر سے جڑانوالہ پہنچنے پر گھر میں چولہا جلانے کے لئے لکڑیاں نہ تھیں۔ والدہ نے ہم دونوں بھائیوں کو بتایا کہ کھانا پکانے کے لئے گھر میں لکڑیاں نہیں ہیں۔ (والد صاحب گھر پر نہ تھے) ہم دونوں بھائی خشک لکڑیوں کی تلاش میں نہر گوگیرہ برانچ کی طرف نکل گئے۔ درختوں کی خشک ٹہنیاں جو زمین پر گری ہوئی تھیں، ہم دونوں بھائیوں نے نہر کی جانب جا کر یہ خشک لکڑیاں جمع کیں اور گھر لے کر آئے۔ ان لکڑیوں کو جلا کر والدہ نے کھانا پکایا اور ہم بچوں کو کھلایا۔ یہ پہلا اور آخری تجربہ تھا کہ ہم لکڑیاں چن کر لائے، کیونکہ اگلے دن سے والد صاحب نے ٹال سے لکڑیاں منگوانا شروع کر دی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان سے شکست کا غصہ بی جے پی کارکنوں نے ہندوؤں کی ملکیت کراچی بیکری پر نکال دیا
تعلیم اور مسجد کا سلسلہ
میونسپل پرائمری سکول میں اپریل 1948ء تا مارچ 1952ء تک میری تعلیم جاری رہی۔ تعلیم کے ساتھ ساتھ فجر کی نماز اور قرآن پاک ناظرہ پڑھنے کے لئے میں خود ہی والد صاحب کو بتائے بغیر جامع مسجد سے ملحقہ مدرسے جانے لگا۔ جہاں صبح کی نماز کے بعد مدرسے میں تعینات حافظ یٰسین بچوں کو قرآن مجید ناظرہ پڑھاتے تھے۔ والد صاحب کو کچھ دنوں بعد حافظ یٰسین نے میرے قرآن مجید پڑھنے کے لئے مدرسے آنے کے بارے میں ذکر کیا تو میرے والد صاحب نے بے حد خوشی کا اظہار کرتے ہوئے گھر میں اس واقعے کا ذکر کیا۔
یہ بھی پڑھیں: شاہین آفریدی نے اہم اعزاز حاصل کرلیا
دوستی اور کھیل کی سرگرمیاں
پرائمری سکول میں میری کلاس کے پانچ چھ بچے ہماری گلی محلے کے ہی تھے۔ جن سے میری اچھی شناسائی ہو گئی اور ہم دوست بن گئے۔ ہم سب دوستوں نے قریبی فیصل آباد روڈ کے ساتھ واقع کھیل میدان میں فٹبال کھیلنا شروع کر دیا۔ ہماری دیکھا دیکھی قریب کے کچھ اور بچوں نے بھی ہمارے ساتھ مل کر کھیلنا شروع کر دیا، اس طرح ہماری ایک فٹبال کی ٹیم بن گئی۔ سکول سے چھٹی کے بعد کھانا کھانے اور ہوم ورک ختم کرنے کے بعد ہم فٹبال گراؤنڈ میں آ جاتے اور مغرب کی اذان کے ساتھ گھر واپسی ہو جاتی۔ گرمیوں میں اتوار چھٹی کے دن نہر کی طرف نکل جاتے تھے جہاں گیارہ بجے سے شام چار بجے تک نہر میں نہاتے اور تیراکی کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: جس طرح پاکستان میں ملکہ ترنم نور جہاں کا بڑا نام ہے ٹھیک اسی طرح مصر میں اُم کلثوم کو یہ رتبہ حاصل تھا،انکی آواز کے مصری دیوانے تھے۔
کھیل اور تفریحات
اُن دنوں جڑانوالہ میں چھوٹے بڑے کئی اکھاڑے تھے جن میں پہلوان کسرت کرتے نظر آتے تھے۔ ہم دوست پہلوانوں کو اکھاڑے میں داؤ پیچ لڑاتے دیکھتے تھے۔ ہر جمعہ کے دن بڑے اکھاڑے میں دنگل ہوا کرتا تھا۔ جسے ہم بہت شوق سے دیکھنے جاتے تھے۔ ہمارے فٹبال گراؤنڈ سے اگلے گراؤنڈ میں والی بال کا گراؤنڈ ہوتا تھا۔ جہاں بڑی عمر کے لوگ والی بال کھیلتے تھے۔ کبھی کبھی ہم والی بال بھی دیکھنے جاتے تھے۔
پہلوانی کا شوق
ہم ذرا اور بڑے ہوئے تو ہمیں بھی پہلوانی کا شوق چرایا۔ چنانچہ ہم دوستوں نے مل کر اپنے فٹبال گراؤنڈ کے ایک کونے میں زمین کھود کر اکھاڑا بنایا۔ اور کچھ عرصہ ہم دوست آپس میں کشتیاں کرنے اور کبڈی کھیلنے اور درختوں پر چڑھنے اْترنے کا شوق پورا کرتے رہے۔
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔