امیر ریاستوں کے راجے مہاراجے چھوٹی پٹریاں بچھا کر ان پر ننھی منی ریل گاڑیاں دوڑاتے تھے جس پر ان کی ریاست کا نام کندہ ہوتا تھا۔

مصنف اور قسط کی معلومات
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 123
حصہ پنجم (جغرافیات و سفریات)
یہ بھی پڑھیں: 8 فروری 2024 کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق 3 درخواستیں عدم پیروی پر خارج
باب 1: ابتدائی مرکزی لائن
جْزو اوّل (کراچی۔ کوٹری۔ لاڑکانہ۔ سکھر اور روہڑی)
تاریخ
یہ بھی پڑھیں: سینئر صوبائی وزیر مریم اورنگزیب نے پنجاب بھر میں اینٹی سموگ گرینڈ آپریشن کی اہم تفصیلات شیئر کر دیں
پاکستان کی مرکزی ریلوے لائنز
ویسے تو اب پاکستان میں قدم قدم پر ریل کی پٹریاں بچھی ہوئی نظر آتی ہیں اور ساری کی ساری اپنے وقتوں میں شاندار خدمات انجام دیتی رہی ہیں، لیکن پاکستان کی سب سے اہم جو لائن تصور کی جاتی ہے، وہ کراچی سے کوٹری، روہڑی، بہاولپور، ملتان، لاہور، جہلم اور راولپنڈی سے ہوتی ہوئی پشاور پہنچنے والی مرکزی لائن ہے۔ یہ واحد ریلوے لائن ہے جو بلوچستان کے سوا پاکستان کے تینوں صوبوں یعنی سندھ، پنجاب اور خیبر پختون خوا سے گزرتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سیکیورٹی فورسز کاضلع خیبر کے علاقے باغ میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ، سرغنہ بتور سمیت 4خوارج جہنم واصل ،3 زخمی
مرکزی لائنز کی تعداد
تکنیکی طور پر اس وقت تک پاکستان میں چار مرکزی لائنیں فعال ہیں، جنہیں سرکاری طور پر ایم ایل، ایم ایل-2، ایم ایل-3 اور ایم ایل-4 کے نام دئیے گئے ہیں۔ مستقبل میں بچھائی جانے والی ایک پٹری ایم ایل-5 کے نام سے بھی ہوگی، جو ٹیکسلا سے شروع ہو کر پاکستان چین کی سرحد خنجراب تک جائے گی۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ کی خاتون وزیر داخلہ کا ہینڈ بیگ چوری ہونے پر ہنگامہ برپا ہوگیا
تاریخی تناظر
تقسیم ہند سے قبل ہی ہندوستان کے مغربی اور شمال مغربی علاقوں میں چلنے والی یہ مرکزی لائن بہت اہمیت اختیار کر گئی تھی۔ یہ سب کیسے ہوا، اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں تاریخ کے کچھ اوراق پلٹنے پڑیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: برازیل میں بزرگ خاتون کی جہاز کے کاک پٹ میں گھسنے کی کوشش، عملے کو ’مخصوص جگہ‘ پر مارنے کی دھمکیاں، ہنگامی صورتحال پیدا ہو گئی
ریلوے کا نظام
ہندوستان میں ریلوے کی آمد اور بعد ازاں اس کے پھیلاؤ کا قصہ چھوڑ کر یہاں ہم صرف اس ریلوے کے نظام کا ذکر کریں گے جو تقسیم ہند کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا تھا۔ اس وقت ریل گاڑی چلانا کوئی اتنا مشکل کام بھی نہ تھا- کوئی بھی کمپنی حکومت سے لائسنس حاصل کر کے اپنی منظور شدہ عمل داری میں پٹریاں بچھواتی، معقول تعداد میں ڈبوں اور انجنوں کا کچھ بندوبست کرتی اور ان پر اپنا یا اپنی کمپنی کا نام لکھوا کر عوام کے لیے اپنی خدمات شروع کر دیتی تھی۔ ہندوستان میں اسی طرح کی بے شمار ریلوے کمپنیاں چل رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل میں زیادہ ففٹیز فخر نے رضوان کو پیچھے چھوڑ دیا
کئی بڑی ریلوے کمپنیاں
اس کے علاوہ امیر ریاستوں کے راجے مہاراجے بھی اپنے زیر نگیں علاقے میں دو ڈھائی فٹ کی چھوٹی پٹریاں بچھا کر ان پر ننھی منی ریل گاڑیاں دوڑائے پھرتے تھے، جس پر ان کی ریاست کا نام اور اس کا سرکاری علامتی نشان کندہ ہوتا تھا۔ بعد ازاں، ریل گاڑیاں چلانے والوں کے آپس میں کچھ معاہدے ہو گئے اور وہ ایک دوسرے کے زیر تسلط علاقوں میں داخل ہو کر ان کی سہولتوں کو استعمال کرنے لگے۔ اسی پس منظر میں ابتدائی دور میں ہندوستان کے مغربی اور شمال مغربی علاقوں میں چار بڑی ریلوے کمپنیاں کام کر رہی تھیں، جن کا مختصر سا تعارف کچھ اس طرح ہے:
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔