قطر کا امریکہ کو تاریخ کا مہنگا ترین تحفہ دینے کا فیصلہ، ٹرمپ نے تصدیق بھی کر دی

امریکہ کا قطر سے ملنے والا تحفہ
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن ) امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے عندیہ دیا ہے کہ وہ قطری شاہی خاندان کی جانب سے دیے گئے بوئنگ 747-8 طیارے کو بطور تحفہ قبول کرے گی، جسے عارضی طور پر ایئر فورس ون کے طور پر استعمال کیا جائے گا۔ تاہم بعد ازاں یہ لگژری طیارہ ٹرمپ کی صدارتی لائبریری کو عطیہ کر دیا جائے گا۔
یہ بھی پڑھیں: گڈانی : خصوصی شخص بیٹے کو بچاتے ہوئے خود بھی ڈوب کر جاں بحق
بوئنگ 747-8 کی قیمت
غیر ملکی خبر رساں ادارے رائٹرز کے مطابق بوئنگ 747-8 کی مارکیٹ قیمت تقریباً 400 ملین ڈالر ہے، جو کہ امریکی حکومت کو ملنے والے سب سے قیمتی تحائف میں سے ایک ہو گا۔ اس حوالے سے صدر ٹرمپ نے اپنے سوشل میڈیا پلیٹ فارم "ٹروتھ سوشل" پر ایک پوسٹ میں اس اقدام کی تصدیق کی۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی والے اس بار اٹھائے گئے تو 2،3 ماہ پتا بھی نہیں چلے گا کہ کہاں گئے؟ سابق گورنر سندھ محمد زبیر
ٹرمپ کا بیان
ٹرمپ نے کہا کہ "تو یہ بات کہ ڈیفنس ڈیپارٹمنٹ کو ایک 747 طیارہ، بالکل مفت، تحفے میں مل رہا ہے تاکہ 40 سال پرانے ایئر فورس ون کی عارضی طور پر جگہ لے، اور یہ سب کچھ ایک نہایت عوامی اور شفاف طریقے سے ہو رہا ہے ، لیکن کرپٹ ڈیموکریٹس کو اتنی پریشانی ہوئی ہے کہ وہ اصرار کر رہے ہیں کہ ہم اس طیارے کی مکمل قیمت ادا کریں"۔
یہ بھی پڑھیں: لائیو سٹاک کارڈ کیلیے اب تک کتنی درخواستیں موصول ہو گئیں۔۔ ؟ جانیے
تنقید اور خدشات
دوسری جانب، ڈیموکریٹ رہنماؤں اور گڈ گورننس کے حامی حلقوں نے اس تحفے کو اخلاقی و آئینی طور پر مشکوک قرار دیا ہے۔ سینیٹ میں ڈیموکریٹک لیڈر چک شومر نے ایک طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے کہا"کیا بات ہے 'امریکا فرسٹ' کی، ایئر فورس ون، قطر کی طرف سے تحفہ!"۔ انہوں نے مزید کہا "یہ صرف رشوت نہیں بلکہ غیر ملکی اثر و رسوخ کی بزنس کلاس ڈیل ہے۔"
یہ بھی پڑھیں: آنر کا نیا سمارٹ فون نئے فیچرز کے ساتھ متعارف، قیمت کتنی ہے؟
وائٹ ہاؤس کا مؤقف
وائٹ ہاؤس کی پریس سیکریٹری کیرولین لیوٹ نے کہا کہ "کسی بھی غیر ملکی حکومت کی جانب سے دیا گیا تحفہ مکمل قانونی طریقہ کار کے مطابق قبول کیا جاتا ہے۔ صدر ٹرمپ کی انتظامیہ مکمل شفافیت کے عزم پر کاربند ہے۔"
قطری حکام کا بیان
قطری ترجمان علی الانصاری نے بھی بیان میں کہا کہ طیارے کی منتقلی فی الحال قطری وزارت دفاع اور امریکی محکمہ دفاع کے درمیان غور و فکر کے مراحل میں ہے اور ابھی کوئی حتمی فیصلہ نہیں کیا گیا۔