اپنی تیز رفتاری اور کم خرچ کی بناء پر ریل گاڑی کا سفر فوراً ہی بہت مقبول ہو گیا، اس وقت کراچی سے کوٹری تک کا رعایتی کرایہ محض 2 آنے رکھا گیا۔

مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 125
یہ بھی پڑھیں: پاکستان بھی کلائیمٹ چینج کے سنگین مسئلہ سے دو چار ،قدرتی آفات سے نمٹنے کی تیاری کرنی ہوگی: مریم نواز
پاکستان ریلوے کا آغاز
1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد صرف پاکستان ویسٹرن ریلوے ہی رہ گئی تھی جس کے ساتھ اب ویسٹرن کا سابقہ لگانے کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا تھا۔ اس لیے اسے اب صرف پاکستان ریلوے (PR) کہا جانے لگا جو آج بھی مستعمل ہے اور انشاء اللہ تا ابد رہے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نے اسرائیلی ایئرپورٹ پر حملے میں حوثیوں کی حمایت کی تردید کر دی
ابتدائی تیاریاں
اب ہم اس گھڑی کی طرف لوٹتے ہیں جب اس علاقے میں ریل گاڑی کا آغاز ہو رہا تھا، اور اس سلسلے میں ابتدائی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: سی ایس ایس 2024 کے تحریری امتحان کا نتیجہ جاری، کامیابی کا تناسب کیا رہا؟
ریلوے لائن کی تعمیر
مبارک سلامت
اپریل 1858ء میں موجودہ پاکستانی علاقوں میں ترجیحی بنیادوں پر کراچی سے کوٹری کی ریلوے لائن بچھنا شروع ہو گئی۔ یہ 174 کلومیٹر کا ٹکڑا تھا، جو 1861ء میں گاڑیوں کی آمد و رفت کے لیے تیار ہوا۔ اسی سال یعنی 13 مئی 1861ء کو کراچی کی بندرگاہ، کیماڑی میں ایک لمبی سیٹی بجی اور پھر ایک پھنکارتا ہوا اسٹیم انجن خرا ماں خرا ماں 8 ڈبوں کو پیچھے لگائے اپنے پہلے سفر پر روانہ ہوا جس کی آخری منزل کوٹری جنکشن تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سینکڑوں لاپتہ،12 افراد کے کوائف ، شواہد ، جنازے ، تصاویر سب موجو دہیں: پی ٹی آئی کا بڑا دعویٰ
ریلوے کی تاریخ میں ایک سنگ میل
گاڑی کی اس حرکت کے ساتھ ہی اس اعتبار سے ریلوے کی ایک نئی تاریخ بھی رقم ہو گئی کہ ہندوستان میں یہ پہلی ریل گاڑی تھی جس نے اپنا باقاعدہ اور مکمل سفر ان علاقوں میں شروع کیا تھا جو بعد میں پاکستان میں شامل ہونے جا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: سنئیر اینکر پرسن آفتاب اقبال دبئی میں گرفتاری کی اطلاعات
پٹری کی تعمیر اور بالائی ڈھانچہ
پٹری کے اس پہلے حصے کو بچھانے میں کل 16 مہینے لگے۔ اس دوران اس پر کم از کم 32 چھوٹے بڑے پل تعمیر کیے گئے۔ متعدد اسٹیشن، دوسری عمارتیں اور فولادی ڈھانچے وغیرہ کی تعمیر میں البتہ کافی وقت لگ گیا۔ اگلے 3 برس میں اس لائن پر پوری رفتار سے مسافر اور مال گاڑیاں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں نئے صوبوں کی ضرورت ہے: شاہد خاقان عباسی
ریلوے کی مقبولیت
اپنی تیز رفتاری اور کم خرچ کی بنا پر ریل گاڑی کا یہ سفر فوراً ہی بہت مقبول ہو گیا۔ اس وقت اس کا کراچی سے کوٹری تک کا رعایتی کرایہ محض 2 آنے رکھا گیا تھا تاکہ عوام کو ریل کے سفر پر آمادہ کیا جا سکے۔ جلد ہی کراچی سے کشتیوں کے ذریعے ایک طویل اور تھکا دینے والا ہفتے بھر کا سفر طے کرکے کوٹری پہنچنے والے مسافر اب اس ریل گاڑی پر سفر کرنے لگے اور یہ سفر اب سمٹ کر محض 174 کلومیٹر رہ گیا جو چند گھنٹوں میں مکمل ہو جاتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: فائر فائٹرز کا عالمی دن آج، مختلف اداروں کے زیر انتظام پروگرامز، کانفرنسز اور سیمینارز کا انعقاد
انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی کی صورتحال
اس ریل گاڑی کے آغاز اور اس کی کامیابی کے باعث انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی کے کراچی سے کشتیوں کے ذریعے دریائے سندھ میں کوٹری تک کا سفر کرنے کا سلسلہ اور جواز بھی اب موقوف ہو گیا تھا۔ کیونکہ وہ کاروباری لوگ تھے، انھوں نے کراچی سے کوٹری تک کے لیے دریائے سندھ میں چلنے والی چھوٹی بڑی کشتیاں بند کر دیں اور اپنا ہیڈ کوارٹرز کوٹری کے قریب ہی بنا لیا۔ اب وہ اپنی بحری خدمات کو یہیں دریائے سندھ پر قائم کی گئی ایک دریائی بندرگاہ ”جھرک“ سے شروع کرتے تھے۔ چونکہ انڈس سٹیم فلوٹیلا سندھ ریلوے کی ہی ایک ذیلی کمپنی تھی، اس لیے انھوں نے اس نئی ریلوے لائن سے بھرپور فائدہ اٹھانے کا سوچا۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔