سپریم کورٹ، بینچوں کی تشکیل میں شفافیت لانے کی ضرورت

سپریم کورٹ میں بینچوں کی تشکیل
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سپریم کورٹ میں ہائی پروفائل کیسز میں بینچوں کی تشکیل مارچ 2009 سے زیربحث رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جنگ بندی سے کون سا دروازہ کھلنے کا امکان پیدا ہوگیا؟ بھارتی تجزیہ کار نے نشاندہی کردی۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ
نجی ٹی وی ایکسپریس نیوز کے مطابق 26 ویں ترمیم کی منظوری کے باوجود ہم خیال بینچ کی اصطلاح اب بھی مستعمل ہے جبکہ آئینی بینچوں کے لیے ججوں کی نامزدگی جوڈیشل کمیشن کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اوگرا نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کی منظوری دیدی
آئینی بینچوں کے ججوں کی نامزدگی
6 ماہ سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود آئینی بینچوں کے لیے ججوں کی نامزدگی کا کوئی معیار وضع نہیں کیا گیا۔ اس وقت تمام صوبوں سے 15 جج آئینی بینچ میں موجود ہیں لیکن وہ جج جو انتظامیہ کی گڈ بک میں نہیں، انہیں اس میں شامل نہیں کیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام فالس فلیگ آپریشن کے بعد بھارت کا ایک اور مذموم منصوبہ بے نقاب
بینچوں کی تشکیل میں شفافیت کی ضرورت
سپریم کورٹ میں بینچوں کی تشکیل میں شفافیت لانے کی ضرورت ہے ورنہ عدلیہ پر سوالات اٹھیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: شراب نوشی کے بعد آدمی کا چہرہ سوج گیا، ڈاکٹر کے پاس گیا تو ایسی خطرناک بیماری کا انکشاف کہ زندگی ہی بدل گئی
کمیٹی کی کردار
جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں جسٹس جمال مندوخیل اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل کمیٹی آئینی بنچوں کے لیے ججوں کا انتخاب کرتی ہے تاہم ہائی پروفائل کیسز میں ہم خیال بنچوں کی تشکیل کمیٹی کے طرز عمل پر سوالیہ نشان ہے۔
کمیٹی نے ملٹری کورٹس کیس میں جسٹس شاہد وحید کو آئینی بنچ کے لیے نامزد نہیں کیا۔ اسی طرح کمیٹی نے سپر ٹیکس کیس میں ٹیکس کے معاملات میں مہارت رکھنے والے ججوں کو نامزد نہیں کیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی صدارتی انتخابات، پنسلوینیا میں 4 ہزار اوور سیز کے ووٹ مسترد ہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا کیونکہ ۔ ۔ .
تنقید کا نشانہ
اب کمیٹی کو مخصوص سیٹوں کے معاملے میں 12 جولائی کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کرنے والے بنچ کی تشکیل میں پانچ ججوں کو نہ بٹھانے پر تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
گزشتہ روز کیس کی سماعت کے دوران سنی اتحاد کونسل کے وکیل فیصل صدیقی نے بینچ کی تشکیل کو چیلنج کیا۔ منگل کی سماعت کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ بینچ بظاہر تقسیم تھا۔
جسٹس امین الدین خان بنچ کی تشکیل کو چیلنج کرنے والی درخواست جمع کرانے کے لیے وکیل کو وقت دینے سے گریزاں تھے۔
وکیل کی مداخلت
تاہم جسٹس جمال خان مندوخیل نے مداخلت کرتے ہوئے کہا کہ وکیل کو اعتراضات اٹھانے کا مناسب موقع دیا جائے۔ ان کی مداخلت کے بعد بنچ نے معاملہ پیر تک ملتوی کرنے کا فیصلہ کیا.