ان دنوں زیادہ تر سامان شیرشاہ کے مقام پر بنائی گئی دریائی بندرگاہ پر اتار کر ملتان، لاہور، امرتسر والی لائن سے ہندوستان کے وسطی علاقوں تک پہنچایا جاتا تھا۔

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 126
اب انڈس اسٹیم فلوٹیلا کمپنی والے اپنا سامان پہلے ہی کی طرح کراچی کی مرکزی بندرگاہ کیماڑی سے وصول کرتے اور اسے کشتیوں کے بجائے براہ راست ریل کے ذریعے کوٹری لے آتے۔ یہاں سے، سامان اور مسافروں کو بحری جہازوں پر منتقل کرکے آگے دریائے سندھ کے ذریعے اپنی منزلوں کو روانہ کر دیا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ تقریباً 18 سال تک جاری رہا۔
اس دوران زیادہ تر سامان ملتان ہی جاتا تھا، جہاں قریب ہی شیرشاہ کے مقام پر بنائی گئی ایک دریائی بندرگاہ پر اسے اتار کر ملتان، لاہور، امرتسر والی لائن سے ہندوستان کے وسطی علاقوں تک پہنچایا جاتا تھا۔ یہ ریلوے لائن بھی 1861ء میں مکمل ہوئی۔
ریلوے کے اہم منصوبے
اس عرصے میں محکمہ ریلوے نے بیک وقت کئی اہم منصوبوں پر کام شروع کر دیا جن کے بغیر کمپنی بہادر یعنی انگریز حکومت کا ہندوستان پر مکمل قبضے کا خواب پورا نہیں ہونے والا تھا۔ ایک طرف لاہور سے ملتان تک پٹری بچھائی گئی تھی، جس کو آگے بہاولپور سے ہوتے ہوئے دریائے سندھ کے بائیں کنارے پر آباد ایک قصبے روہڑی لے جانا مقصود تھا۔ لیکن بہاولپور سے پہلے دریائے ستلج پر ایک پل بھی بنانا ضروری تھا۔
ایک اور بڑا کام جو اسی دوران ہونا تھا، وہ کوٹری اور حیدرآباد کے بیچ دریائے سندھ پر ایک بڑا پل بنا کر ریلوے لائن کو دریا کے مشرقی کنارے پر لے آنا تھا، تاکہ اسے براہ راست روہڑی میں اس مرکزی پٹری سے ملایا جا سکے جو لاہور، ملتان اور بہاولپور وغیرہ سے یہاں پہنچ رہی تھی۔
کراچی سے پشاور تک کا راستہ
اس پٹری کو لاہور سے شمال کی طرف یعنی پشاور بھی لے کر جانا تھا۔ جب یہ منصوبہ مکمل ہو جاتا تو نہ صرف کراچی سے پشاور تک کا راستہ صاف ہو جاتا بلکہ لاہور سے امرتسر کے ذریعے ہندوستان کے وسطی علاقوں میں جانے والی لائنیں بھی اس میں مل جاتیں۔ یوں پورے ہندوستان کا کراچی کی بندرگاہ سے بھی رابطہ ہو جاتا۔
ریل کی یہی کراچی تا پشاور لائن آگے چل کر پاکستان کی مرکزی لائن کہلائی۔ ابھی کوٹری اور حیدرآباد کے پل اور اس کے بعد روہڑی تک ریلوے لائن زیر تعمیر ہی تھی کہ 1861ء میں لاہور سے ملتان تک کی ریلوے لائن بھی تیار ہو گئی۔ اس کا فائدہ یہ ہوا کہ جہاز اور سٹیمر جو سامان اور مسافروں کو ملتان پہنچاتے تھے، وہ اب روایتی سواریوں کے بجائے ریل گاڑی کے ذریعے لاہور اور پھر آگے امرتسر تک جا سکتے تھے۔
کوٹری سے آگے کا راستہ
روہڑی سے کوٹری تک ریل کی پٹری ابھی بچھائی جا رہی تھی اور اس میں مزید وقت لگنے والا تھا۔ اس کے علاوہ، کوٹری اور حیدرآباد کے بیچ دریائے سندھ کو عبور کرنے کے لیے پل کا دور دور تک کوئی اتہ پتہ نہیں تھا۔ دریا کا پاٹ کافی وسیع اور پانی کا بہاؤ بھی تیز تھا، جس کی بنا پر پل بنانا آسان کام نہیں تھا۔
کوٹری سے آگے جانے کا راستہ نہ پا کر تب کی سندھ ریلوے نے ایک زبردست قدم اٹھایا اور کوٹری-روہڑی ریلیو لائن کے منصوبے کے مکمل ہونے کا انتظار کرنے کی بجائے روہڑی سے ملانے کے لیے ایک متبادل راستہ اختیار کرنے کا سوچا۔
(جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔