لاہور سے روہڑی کی تقریباً پونے آٹھ سو کلومیٹر طویل لائن مکمل ہوگئی تھی، ان کے ساتھ ہی لاہور سے امرتسر تک کی لائن بھی بن کر تیار تھی۔

منصوبے کی تفصیل

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 127
کوٹری۔ لاڑکانہ۔ سکھر۔ روہڑی
لہٰذا طے پایا کہ ایک لائن کوٹری جنکشن سے دریائے سندھ کے دائیں طرف یعنی مغربی کنارے پر رہتے ہوئے بنائی جائے جس کو دادو، لاڑکانہ سے ہوتے ہوئے سکھر پہنچایا جائے۔ منصوبہ یہ تھا کہ کراچی سے ملتان اور لاہور کے طرف جانے والی گاڑیاں اس نئے راستے سے سکھر تک پہنچیں گی۔ اسی دوران کوٹری والا ریل کا پل اور اس سے آگے ریلوے لائن تعمیر ہوتی رہے گی۔

یہ بھی پڑھیں: شادی سے پہلے فونز پر باتیں ہوئیں اور 2 بار باہر ملے، ثمینہ احمد کامنظر صہبائی سے شادی کی پیشکش سے متعلق دلچسپ انکشاف

ریل کی آمد و رفت

ایک طرف ملتان سے روہڑی کی طرف آنے والی لائن اور دریائے ستلج کا پْل تعمیر ہو جانے کے بعد، لاہور کی جانب سے آنے والی گاڑیاں بلا کسی رکاوٹ کے اب روہڑی تک پہنچ جاتی تھیں۔ روہڑی دریا کے بائیں یعنی مشرقی سمت میں تھا۔ اصل منصوبے کے مطابق ریل گاڑی کو دریا کے اسی سمت رہ کر سفر کرکے حیدرآباد اور کوٹری کے بیچ دریائے سندھ پر موجودہ پْل پر سے گزر کر کراچی پہنچنا تھا۔ لیکن نامکمل اور زیر تعمیر منصوبوں کی وجہ سے دریا کے بائیں طرف لائن کو چلانے میں ابھی کافی وقت درکار تھا۔

یہ بھی پڑھیں: لاہور کے 3200 صحافیوں کو پلاٹس دینے میں بڑی پیش رفت

ریلوے لائن کی تکمیل

دوسری طرف کوٹری سے دریائے سندھ کے دائیں کنارے سکھر تک بنائی جانے والی ریلوے لائن 1878ء میں مکمل ہو گئی تھی۔ ریل گاڑیاں اب کوٹری سے سکھر تک بچھائی گئی اس متبادل پٹری پر بلا کسی روک ٹوک دوڑتی ہوئی آتیں اور ”رْک“ اسٹیشن سے گزرتی ہوئی سکھر کے قریب دریائے سندھ کے کنارے ایک آبی بندر گاہ پر پہنچ جاتی تھیں۔ کچھ وقت تک تو یہی ان کا آخری اسٹیشن تھا۔ اسی طرح جو لائن کوئٹہ اور سبی کی طرف سے کراچی کے طرف جاتی تھی وہ بھی سکھر پہنچ کر لاڑکانہ اور کوٹری سے ہوتی ہوئی بلا روک ٹوک کراچی کی طرف روانہ ہو جاتی تھیں۔ یہ سارا راستہ دریا کے دائیں طرف تھا اس لیے اسے دریا عبور کروانے کا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ لیکن کوئٹہ کی گاڑیوں کا لاہور، راولپنڈی یا پشاور کی طرف جانا فی الحال ممکن نہیں تھا۔ ان تمام مشکلات پر قابو پانے کے لیے خصوصی انتظامات کیے جانے ضروری تھے۔

یہ بھی پڑھیں: کرم میں مسافر گاڑیوں پر فائرنگ سے 38 افراد ہلاک: ‘ایسا لگ رہا تھا کہ آج وہ کسی کو معاف نہیں کریں گے’

تعمیراتی چیلنجز

لاہور سے روہڑی کی تقریباً پونے آٹھ سو کلومیٹر طویل لائن بھی مکمل ہوگئی تھی اور پھر ان کے ساتھ ہی لاہور سے امرتسر تک کی لائن بھی بن کر تیار تھی۔ عام الفاظ میں گویا ریل گاڑی کی حد تک تو کراچی سے لاہور اور پھر آگے دہلی تک کا رابطہ تقریباً مکمل ہو گیا تھا۔ اور دہلی سے آگے تو ہندوستان کے تقریباً سارے ہی بڑے شہر اب ریل گاڑی کی دسترس میں ہی تھے۔

یہ بھی پڑھیں: چین کا جوابی وار، امریکہ کے لیے انتہائی اہم معدنیات کی برآمد پر پابندی لگا دی

راستے کی رکاوٹیں

اس سارے منصوبے میں اس وقت جو سب سے بڑا مسئلہ بنا ہوا تھا وہ یہ تھا کہ کراچی سے آنے والی ریل گاڑیوں کو لاہور جانے والی لائن سے کیسے منسلک کیا جائے، کیوں کہ لاڑکانہ سکھر والی لائن دریا کے دائیں طرف اور روہڑی والی بائیں طرف بنی ہوئی تھی۔ کتابوں اور منصوبے کےحد تو سب ٹھیک ہی چل رہا تھا لیکن روہڑی یا سکھر سے گاڑی کو دریائے سندھ عبور کروا کر دوسری طرف کی لائن سے ملانے میں سب سے بڑی رکاوٹ یہاں کسی ریلوے پْل کا نہ ہونا تھا، اور مستقبل قریب میں اس کے جلد بننے کے کوئی امکانات بھی نہ تھے۔ لہٰذا ریل کی لائنوں کو براہ راست آپس میں ملانے کا کام کچھ برسوں تک کے لیے رک سا گیا۔

حل کی تلاش

لیکن انجینئروں نے ہمت نہ ہاری اور اس مسئلے پر غور و خوض کے بعد کمال مہارت سے فوراً ہی اس کا حل بھی تلاش کر لیا۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...