میونسپل لائبریری جڑانوالہ میں ”دیوان سنگھ مفتون“ کے مقدمات پر مبنی آپ بیتی اور ہٹلر کی ”میری کہانی“ نامی خودنوشت جیسی کتابیں پڑھنے کا اتفاق ہوا

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
یہ بھی پڑھیں: 5 جولائی سیاہ دن، عوامی حکومت پر شب خون مار کر ملک کو اندھیروں میں دھکیلا گیا: بلاول
قسط: 37
یہ بھی پڑھیں: 26ویں آئینی ترمیم کیخلاف درخواستوں پر فیصلے تک جوڈیشل کمیشن کا اجلاس موخر کیا جائے، جسٹس منصور علی شاہ کا چیف جسٹس یحییٰ آفریدی کو خط
میٹرک کا امتحان اور قوم کی خدمت
میٹرک کا امتحان دینے کے بعد یوتھ ورک اور قومی خدمات کی جانب میری دلچسپی بڑھی۔ میونسپل لائبریری جڑانوالہ میں "دیوان سنگھ مفتون" کی آپ بیتی اور ہٹلر کی "میری کہانی" جیسے کتب پڑھنے کا موقع ملا۔ روزانہ کئی اخبارات کا مطالعہ اور سکول میں بزم ادب کے اجلاسوں میں شرکت سے مجھے حالاتِ حاضرہ کا بہتر شعور حاصل ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین حجاج کے لئے محرم کی شرط ختم
قومی اسمبلی کی کارروائیاں
سکول کے زمانے میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں 1956ء کے آئین کی تیاری کی کارروائیاں دلچسپی سے پڑھتا رہا۔ مخلوط اور جداگانہ انتخابات کے مباحثیں میرے ذہن میں نقش ہو گئے۔ اس وقت مشرقی پاکستان کے لیڈران نے ایثار کا مظاہرہ کرتے ہوئے "Parity" کے اصول کو تسلیم کیاجو میرے لیے خاصا متاثر کن تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور قلندرز نے گلوبل سپر لیگ کے لیے سکواڈ کا اعلان کردیا
ذاتی تجربات اور ذمہ داریاں
ہائی سکول کے دوران تعلیم اور کھیلوں میں دلچسپی رکھنے کے باعث میری سوچ میں سنجیدگی پیدا ہو رہی تھی۔ میٹرک کے بعد کالج میں داخلہ تک کا وقت مجھے نئی سوچوں میں مبتلا کر گیا۔ قائداعظم کی قیادت میں ہم کس طرح کی جمہوریت چاہتے تھے، یہ سوال میری سوچ میں گردش کرنے لگا۔
یہ بھی پڑھیں: پیپلزپارٹی کا وفاقی بجٹ 26-2025 کے حق میں ووٹ دینے کا فیصلہ
نوجوانوں کی رہنمائی کی ضرورت
ملک کی خدمت کے حوالے سے نوجوانوں کو مناسب رہنمائی کی کمی محسوس ہوتی تھی، میں نے اپنے دوستوں کے ساتھ پاکستان کرکٹ کلب میں اس پر گفتگو کی۔ ایک رائے یہ بھی ہوئی کہ میاں عبدالباری کے بیٹے میاں دستگیر باری سے ملاقات کی جائے۔
یہ بھی پڑھیں: داسو میں چینی انجینیئرز پر حملے کے دو ملزم فرار ہوتے ہوئے ہلاک: سی ٹی ڈی پنجاب
آل پاکستان یوتھ آرگنائزیشن کی بنیاد
میاں دستگیر باری کے ساتھ ملاقات کی ، جس میں "آل پاکستان یوتھ آرگنائزیشن" کے قیام کا عزم کیا۔ اس مقصد کے لئے ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں میاں دستگیر باری، کلیم احسن، شیخ نور احمد اور میں شامل تھا۔ مگر ہماری کم عمری اور تجربے کی کمی کے باعث ہم پوری منصوبہ بندی نہ کر سکے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔