کراچی اور لاہور کے بیچ گاڑی چل نکلی تھی جو تین، چار دن میں منزل مقصود پر پہنچ جاتی تھی، یہ ڈیڑھ مہینے کے دریائی سفر سے تو بہت بہتر تھا۔

مصنف: محمد سعید جاوید

قسط: 128

اب کیا کریں؟

یہاں ایک بار پھر انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی کے بحری جہاز اور سٹیمر ریل گاڑیوں کو دریائے سندھ عبور کروانے کے لیے میدان میں اْتر آئے۔ ان کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا کہ وہ سکھر سے شمال یعنی ملتان اور لاہور کی طرف جانے والی ریل گاڑیوں اور ان کے مسافروں کو اپنے دیو قامت سٹیمروں میں لاد کر دریائے سندھ عبور کروا کر روہڑی کے طرف اْتار دیں۔ اور اسی طرح کوئٹہ سے لاہور کی طرف جانے والی گاڑیوں کو بھی دریا کے اس پار یعنی روہڑی کے طرف پہنچا کر اسے لاہور پشاور جانے والی لائن پر منتقل کردیں۔

شروع میں تو ایسا ہوتا رہا کہ یہاں پہنچنے والی گاڑیوں کے مسافروں اور ان کے سامان کو یہاں اتار کر جہازوں کے ذریعے دوسرے کناروں تک پہنچا دیا جاتا جہاں اتر کر وہ دوسری گاڑی پر سوار ہو کر اپنی منزلوں کی طرف روانہ ہو جاتے تھے۔ بعد میں بڑے سٹیمروں کی آمد پر پوری گاڑی ہی ان پر سوار کرادی جاتی تھی۔

کراچی سے لاہور کی طرف جانے والی گاڑی کوٹری اور لاڑکانہ سے ہوتی ہوئی سکھر تک پہنچ کر دریا کنارے کشتی گھاٹ پر ٹھہر کر سٹیمر کا انتظار کرتی، جس کے ملنے پر وہاں سے ریل گاڑی کی 8مسافر بوگیوں کو دو تین حصوں میں تقسیم کرکے ایک عارضی پٹری کے ذریعے براہ راست سٹیمر پر لاد دیا جاتا تھا۔ ساتھ ہی مسافروں اور متفرق سامان کو بھی سٹیمر میں منتقل کر دیا جاتا تھا۔

لدے پھندے یہ سٹیمر دریا کو عبور کرتے اور دوسرے کنارے یعنی روہڑی کی طرف ملتان اور لاہور جانے والی پٹری پر پہنچا دیتے جہاں شنٹنگ انجن کی مدد سے سٹیمر سے آٹھوں بوگیاں اْتار لی جاتیں اور ان کو ایک بار پھر آپس میں منسلک کر کے ایک مکمل گاڑی تیار کرکے اسے مسافروں اور سامان سمیت ملتان لاہور کی سمت روانہ کر دیا جاتا تھا۔ اسی طرح لاہور ملتان سے کراچی یا کوئٹہ کی طرف جانے والی گاڑیوں کے ساتھ بھی یہی کچھ کیا جاتا تھا اور وہ روہڑی کی طرف سے دریا عبور کرکے سکھر اور وہاں سے لاڑکانہ اور کوٹری ہوتے ہوئے کراچی یا سبی اور کوئٹہ کی طرف روانہ ہو جاتی تھیں۔

یہ اس مسئلے کا کوئی مستقل اور پائیدار حل تو نہیں تھا، لیکن اتنا ضرور ہوا کہ کراچی اور لاہور کے بیچ گاڑی چل نکلی تھی جو تین چار دن میں منزل مقصود پر پہنچ جاتی تھی۔ یہ اس ڈیڑھ مہینے کے دریائی سفر سے تو بہت بہتر تھا جو ریل گاڑی کی آمد سے قبل لوگ بحری جہازوں میں کیا کرتے تھے۔

پھریوں ہوا کہ روہڑی اور سکھر کے بیچ باقاعدہ پل بننا شروع ہوا۔ ویسے یہ پل دراصل کراچی یا لاہور سے براستہ روہڑی، سکھر، جیک آباد، سبی اور کوئٹہ جانے والی لائن کے لیے بنایا جا رہا تھا، کیونکہ مستقبل میں جب اپنے منصوبے کے مطابق روہڑی۔ کوٹری- کراچی لائن کا آغاز ہو جاتا تو شمال کی طرف سے آنے والی گاڑیوں کو سکھر کی طرف آنے کی ضرورت ہی نہیں تھی۔ وہ یہاں دریا کو عبور کیے بغیر دریا کے بائیں طرف ہی رہتے ہوئے سیدھی کوٹری سے ہوتی ہوئی کراچی چلی جاتیں۔ کچھ ایسی ہی صورت حال کراچی سے شمال یعنی ملتان، لاہور، پشاور یا دلی کی طرف جانے والی گاڑیوں کی بھی ہو جاتی۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...