پہلگام حملے کے بعد بھارت میں مسلم مخالف نفرت انگیز جرائم میں خطرناک اضافہ، 19 ریاستوں میں 184 واقعات رپورٹ

پہلگام واقعہ کے بعد مسلمانوں کے خلاف نفرت کا بڑھتا ہوا رحجان
نئی دہلی (ویب ڈیسک) پہلگام واقعہ کے بعد بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت، تشدد، ہراسانی اور معاشرتی بائیکاٹ جیسے واقعات میں خطرناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔ شہری حقوق کے لیے سرگرم تنظیم "ایسوسی ایشن فار پروٹیکشن آف سول رائٹس" (APCR) کی حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ صرف دو ہفتوں کے اندر 19 ریاستوں میں 184 نفرت پر مبنی جرائم ریکارڈ کیے گئے، جن میں سے 106 واقعات میں براہِ راست پہلگام حملے کا حوالہ دیا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پنجابی کلچر ڈے کی تقریبات کا آغاز، عوام کی فری انٹری ہوگی: عظمیٰ بخاری
منظم مہم کا حصہ: رپورٹ کی تفصیلات
رپورٹ کے مطابق 178 صفحات پر مشتمل اس فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ میں ان واقعات کو انفرادی یا اتفاقی نوعیت کے بجائے ایک منظم اور منصوبہ بند مہم کا حصہ قرار دیا گیا ہے، جس کا مقصد ملک میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا ماحول پیدا کرنا اور اکثریتی برادری کے ذہنوں میں زہر بھرنا بتایا گیا ہے۔ اے پی سی آر کے مطابق ان واقعات میں ہندوتوا نظریات کے حامل گروہوں کا مرکزی کردار رہا ہے، جنہوں نے پہلگام حملے کو مسلمانوں کے خلاف نفرت بھڑکانے کے ایک "آلے" کے طور پر استعمال کیا۔
یہ بھی پڑھیں: چیئرمین جوائنٹ چیفس جنرل ساحر شمشاد مرزا کا دورہ نائیجریا،وزیر دفاع اور فوجی سربراہان سے ملاقاتیں
نفرت کے واقعات کی نوعیت
رپورٹ کے مطابق ان 184 واقعات میں کم از کم 316 افراد کو نشانہ بنایا گیا، جنہیں یا تو جسمانی تشدد، ہراسانی، معاشی بائیکاٹ، یا بعض صورتوں میں جبری بے دخلی جیسے اقدامات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سب سے زیادہ 43 واقعات اتر پردیش میں ریکارڈ کیے گئے، جب کہ مہاراشٹرا اور اتراکھنڈ میں 24، مدھیہ پردیش میں 20 اور دہلی، ہماچل پردیش اور بہار میں بھی درجنوں واقعات پیش آئے۔ علاوہ ازیں کرناٹک، پنجاب اور چندی گڑھ میں بھی سنگین نوعیت کے حملے رپورٹ کیے گئے۔
یہ بھی پڑھیں: ساجد خان نے گھر بلا کر کپڑے اتارنے کا کہا،اداکارہ نوینا بولے نے ہدایتکار پر سنگین الزام عائد کردیا
جرائم کی مختلف اقسام
جرائم کی نوعیت کے لحاظ سے 84 واقعات نفرت انگیز تقاریر، 78 دھمکی آمیز اقدامات، 42 ہراسانی، 39 جسمانی حملوں، 19 توڑ پھوڑ، 7 زبانی بدسلوکی، اور 3 قتل کے زمرے میں شامل کیے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق کئی مقامات پر مسلمانوں کی دکانوں کو نذرِ آتش کیا گیا، سوشل میڈیا پر کشمیریوں کے خلاف نفرت آمیز مواد پھیلایا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ایمان مزاری ، ہادی علی چٹھہ کا جسمانی ریمانڈ کالعدم قرار
تشویش ناک واقعات کا ذکر
رپورٹ میں ہریانہ کے امبالہ شہر کا خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے، جہاں شدت پسند ہجوم نے "جے شری رام" کے نعرے لگاتے ہوئے مسلم دکانداروں کی دکانیں جلا دیں اور پولیس کی مدد سے انہیں بازار سے ہٹایا گیا۔ اسی طرح مغربی بنگال کے مہیش تلا میں ایک حاملہ مسلم خاتون کو علاج سے انکار کر دیا گیا، اور گائناکالوجسٹ نے پہلگام حملے کا حوالہ دے کر نفرت آمیز زبان استعمال کی۔ مدھیہ پردیش، منگلورو، آگرہ اور بوکارو جیسے شہروں میں مسلمانوں کے قتل کے واقعات بھی رپورٹ میں شامل کیے گئے ہیں۔
تنقیدی جائزہ
رپورٹ مرتب کرنے والی ٹیم کے ایک رکن کے مطابق پہلگام حملے کے بعد پیش آئے واقعات محض ردعمل نہیں تھے، بلکہ اس بات کی علامت ہیں کہ کس طرح منظم انداز میں دائیں بازو کے گروہ مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسے جرائم عام طور پر الگ تھلگ نہیں ہوتے، بلکہ ان کے پیچھے مخصوص حالات، منصوبہ بندی اور بعض اوقات ریاستی اداروں کی خاموش تائید شامل ہوتی ہے۔