سکھر سے بھکر کے بیچ دریائے سندھ کا بہاؤ

مصنف کی تفصیلات

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 129

یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم شہباز شریف اور نواز شریف کے درمیان ملاقات کی اندرونی کہانی سامنے آگئی

دریائے سندھ کی اسٹریٹجک تقسیم

دریائے سندھ پیچھے سے تو عام دریاؤں کی طرح تنہا اور شریفانہ انداز میں ہی بہتا چلا آتا تھا لیکن سکھر کے قریب پہنچتے ہی وہ دو حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے۔ ایک نسبتاً چھوٹا حصہ سکھر شہر کی طرف سے ہو لیتا جب کہ دریا کا دوسرا اور بڑا پاٹ روہڑی کی طرف سے آگے بڑھ جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ پنجاب کا اہم فیصلہ، سول ڈیفنس اور ریسکیو 1122 کی فرضی مشقیں شروع

جزیرہ بھکر کی اہمیت

قدرتی طور پر دریائے سندھ کی ان دونوں شاخوں کے بیچ میں ایک کافی بڑا جزیرہ وجود میں آ گیا تھا جسے بھکر کہتے ہیں۔ یہ ایک پتھریلا سا جزیرہ ہے جس کے ایک طرف تو سکھر ہے اور دوسری طرف روہڑی۔ تاہم اس پر کافی آبادی بھی مقیم ہے اور کچھ سرکاری دفاتر، گھر اور مختلف نوعیت کی عمارتیں بھی بنی ہوئی ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: بانی پی ٹی آئی کے کس غلط فیصلے کا بہت زیادہ نقصان ہوا۔۔۔؟ اسد عمر بول پڑے

پل کی تعمیر کی منصوبہ بندی

روہڑی اور سکھر کے بیچ پل بنانے کے لیے یہ جگہ موزوں ترین سمجھی گئی۔ انجینئروں نے اس جزیرے سے بھرپور فائدہ اٹھایا اور سوچا کہ سکھر سے بھکر تک پل کا ایک حصہ اور پھر بھکر سے روہڑی تک دوسرا حصہ تعمیر کیا جائے۔ دوسرے لفظوں میں ان کو پل کے بڑے حصے کے مضبوط ستون زمین میں گاڑنے کے لیے ایک پائیدار بنیاد مل گئی تھی۔

یہ بھی پڑھیں: سندھ حکومت کا ڈیبٹ، کریڈٹ کارڈ سے ادائیگی نہ لینے والے ریسٹورنٹ کیخلاف بڑا فیصلہ

پانی کی گہرائی اور تکنیکی چیلنج

سکھر سے بھکر کے بیچ دریا کا بہاؤ پُرسکون ہے اور یہ زیادہ چوڑا بھی نہیں ہے، یہ آگے جا کر بھکر جزیرے کے اوپر سے ہوتا ہوا ایک بار پھر مرکزی دریا کے ساتھ مل جاتا ہے۔ یہاں پانی کے نیچے کی تہہ بھی پتھریلی ہے، تاہم بھکر اور روہڑی کے بیچ پل بنانا ایک پیچیدہ مسئلہ تھا۔ یہاں پانی کی گہرائی بھی بہت زیادہ ہے اور تیز بہاؤ اور دریا کا کٹاؤ ایسا ہے کہ وہاں دریا کے اندر پل کے ستون بن ہی نہیں سکتے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: بھارتی جارحیت میں شہید ہونے والے 7 سالہ بچے کی نماز جنازہ ادا کردی گئی، وزیر اعظم اور آرمی چیف کی شرکت

منصوبے کی تاخیر

یہاں پل بنانے کا منصوبہ تو بہت پہلے ہی سے بن چکا تھا تاہم اس پر باقاعدہ سروے کا آغاز 1872ء میں ہی ممکن ہو سکا، جو سرخ فیتے کی وجہ سے مسلسل کئی برس تک چلتا ہی رہا۔ یہاں کے پیچیدہ تکنیکی حالات اور مشکلات کو مدّنظر رکھتے ہوئے کئی تجاویز پیش کی گئیں مگر انجینئر متفق ہوئے اور نہ ہی کسی نتیجے تک پہنچ سکے اور یوں یہ منصوبہ تاخیر کا شکار ہوتا چلا گیا۔

یہ بھی پڑھیں: چوہدری سالک حسین نے ای او بی آئی پیشنرز کو بڑی خوشخبری سنادی

ریلوے نظام کا مرکزی ڈھانچہ

اس دوران پورے ہندوستان میں ریل گاڑیوں کی پٹریاں بچھائے جانے کا کام ایک تواتر سے ہوتا رہا۔ اب جب کہ کراچی سے دہلی اور لاہور سے پشاور تک ریلوے نظام کا مرکزی ڈھانچہ اور پٹریاں تقریباً تیار تھیں، صرف اٹک کا پل باقی رہ گیا تھا جو بننے میں ہی نہ آ رہا تھا۔ گاڑیاں روہڑی سندھ سے اٹک کے پل پر باآسانی اور بغیر کسی رکاوٹ کے آ جا سکتی تھیں۔

مسئلے کا حل

سکھر والے پل کا بھی کچھ ایسا ہی مسئلہ تھا اور وہ بھی گاڑی کے مسلسل سفر کا راستہ روکے کھڑا تھا۔

(جاری ہے)

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...