ہاسٹل گورنمنٹ کالج کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے، علامہ اقبال بھی اسی ہاسٹل میں رہے، ہر خطے سے آئے طلباء ہمارے ساتھ رہائش پذیر تھے۔

مصنف کا تعارف
مصنف: رانا امیر احمد خاں
قسط: 40
یہ بھی پڑھیں: مقبرہ بہت قریب آگیا تھا، چھوٹی سی پہاڑی کے اندر واقع تھا، جتنی دیر وہ اندر رہتے، باقی لوگ دروازے پر کھڑے اپنی باری کا انتظار کرتے رہتے.
پروفیسر بننے کا ارادہ
میں نے کہا میں پروفیسر نہیں بننا چاہتا۔ میرا مقصد اپنے ملک کی خدمت کرنا اور سیاست میں حصہ لینا ہے۔ یہ کہہ کر میرے ذہن میں قائد اعظم اور علامہ اقبال جیسے بانیان پاکستان کی یاد آئی۔ میں نے انہیں بتایا کہ مجھے اقتصادیات / اکنامکس کا مضمون پسند ہے۔ انہوں نے کہا کہ آپ اکنامکس کے ساتھ سوکس / پولیٹکل سائنس اور ہسٹری رکھیں۔ مضامین کا یہ مشورہ مجھے پسند آیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی اے کرنے کے بعد فوراً ایل ایل بی کریں اور وکالت میں شامل ہوجائیں۔ میں آج سوچتا ہوں کہ یہ ایک انتہائی عقلمندانہ مشورہ تھا، لیکن اپنی ناپختگی کی وجہ سے میں نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ مجھے بالآخر سیاست کرنی ہے، جس کے لیے اقتصادیات کا گہرا علم ہونا ضروری ہے۔ میں تو اقتصادیات میں ایم اے کرنے کے بعد ایل ایل بی کروں گا۔ والد صاحب خوش تھے کہ بالاخر میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ میرے مضامین ایف اے میں اکنامکس، ہسٹری اور سوکس ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے ’’عوامی مشروب‘‘ کی نئی قیمت مقرر کردی
میٹرک کا نتیجہ اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ
اس دوران میٹرک کا رزلٹ آ گیا اور میں نے فرسٹ ڈویژن میں کامیابی حاصل کی۔ والد صاحب نے اچھے نمبروں کی بنا پر میرے لیے ایک بڑا فیصلہ کیا۔ فیصل آباد کے بجائے مجھے گورنمنٹ کالج لاہور میں داخل کروا دیا۔ میری ایک پھوپھی جمیلہ بیگم کی فیملی لاہور اچھرہ میں رہائش پذیر تھے۔ ان کے شوہر رانا معشوق علی خان اکاؤنٹینٹ جنرل پنجاب لاہور آفس میں ملازم تھے۔ پھوپھا جان کی خواہش کے باوجود والد صاحب نے مجھے ان کے ہاں رہائش رکھنے کی بجائے گورنمنٹ کالج لاہور کے ہاسٹل میں قیام کرنے کو ترجیح دی۔
یہ بھی پڑھیں: وفاقی بجٹ آج، تنخواہوں اور پنشن میں اضافے کی توقع
کوارڈرینگل ہوسٹل میں قیام
ہاسٹل میں قیام کا یہ میرا پہلا تجربہ تھا۔ یہ ہاسٹل گورنمنٹ کالج کی تاریخ میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ علامہ اقبال تعلیم کے سلسلے میں سیالکوٹ سے لاہور آئے اور گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینے کے بعد اسی ہاسٹل کے کمرہ نمبر 1 میں مقیم رہے۔ ہمارے ہاسٹل میں چند افریقی طلباء کے علاوہ پاکستان کے ہر خطے سے آئے ہوئے طلباء رہائش پذیر تھے۔ سینٹرل ماڈل سکول لاہور سے آنے والے طلباء کی تعداد سب سے زیادہ تقریباً 10 کے قریب تھی۔ ہاسٹل میں کیوبیکل / سنگل کمرے بارہویں جماعت کے طلباء، 10 فرسٹ ائیر کے میٹرک میں ٹاپ کرنے والے طلباء اور غیر ملکی طلباء کے لیے مخصوص تھے۔ مجھے ڈارمیٹری میں جگہ ملی، جس میں میرے علاوہ فرزند علی، محمد اکرم خان اور عبدالغفور مرزا بھی رہتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: 26 ویں آئینی ترمیم کا مقصد پارلیمان کو عدلیہ کا زیر نگیں ہونے سے بچانا ہے، خواجہ آصف
دوستانہ تعلقات اور یادیں
ہاسٹل میں مقیم میرے قریبی دوستوں میں جاوید مشرف، فلک شیر، راجا محمد اکرم، ریاض احمد ملک، عبدالرشید خان، ان کے کزن راؤ محمد راشد اور چودھری محمد اکرم شامل تھے۔ جاوید مشرف، ریاض احمد ملک، اور فرزند علی حسرت کے ساتھ میری دوستی گہری ہوتی گئی۔ گزشتہ 65 سالوں کے روابط آج بھی قائم ہیں۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)، ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔