امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے نتائج نکلنے کا امکان نہیں: خامنہ ای

ایران کے سپریم لیڈر کا بیان
تہران (ڈیلی پاکستان آن لائن) ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے کہا ہے کہ امریکہ کے ساتھ جوہری مذاکرات کے نتائج نکلنے کا امکان نہیں ہے، اسلامی جمہوریہ کی یورینیم افزودگی کی سرگرمیوں پر ڈیڈ لاک برقرار ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پاک بنگلہ دیش ٹی 20 سیریز کا آخری میچ آج کھیلا جائے گا
مذاکرات کی صورتحال
فرانسیسی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق خامنہ ای نے منگل کے روز تقریر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں نہیں لگتا کہ امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلے گا، ہمیں نہیں معلوم کیا ہوگا لیکن ایران کے یورینیم افزودگی کے حق سے انکار کرنا ’بڑی غلطی‘ ہے۔
ایران اور امریکہ نے 12 اپریل سے اب تک عمان کی ثالثی میں مذاکرات کے 4 ادوار کئے ہیں، جو 2015 کے جوہری معاہدے سے واشنگٹن کی دستبرداری کے بعد دونوں ممالک کے درمیان سب سے اعلیٰ سطح کا رابطہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اے ایف سی ویمنز ایشین کپ کوالیفائرز، انڈونیشیا کے بعد پاکستان نے کرغزستان کو بھی شکست سے دوچار کردیا
تازہ ترین ملاقات
فریقین نے 11 مئی کو ہونے والی تازہ ترین ملاقات کے دوران ایک اور دور کے مذاکرات پر اتفاق کیا تھا، جسے تہران نے ’مشکل مگر مفید‘ قرار دیا جبکہ امریکی اہلکار نے کہا تھا کہ واشنگٹن ’حوصلہ افزا‘ محسوس کر رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: مفتاح اسماعیل نے ’’کرپٹو مخالف بیانیہ‘‘ کیوں اپنایا، اربوں روپے کہاں گئے، پریس کانفرنس میں کیا کچھ چھپانے کی کوشش کی۔۔۔؟ تہلکہ خیز انکشافات
ایران کے افزودہ یورینیم کی سطح
ایران اس وقت یورینیم کو 60 فیصد تک افزودہ کر رہا ہے، جو 2015 کے معاہدے میں مقرر کردہ 3.67 فیصد کی حد سے کہیں زیادہ ہے لیکن جوہری ہتھیار کے لئے درکار 90 فیصد سطح سے کم ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ملک بوستان کی اسلام آباد میں اہم شخصیت سے ملاقات، ڈالر کے ریٹ پر گفتگو
مغربی ممالک کے الزامات
امریکہ سمیت مغربی ممالک طویل عرصے سے ایران پر جوہری ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش کا الزام لگاتے آئے ہیں، جبکہ ایران کا اصرار ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پ±رامن مقاصد کے لئے ہے۔
یہ بھی پڑھیں: موبائل فون پر ٹیکسز اور ڈیوٹیز کون سا ادارہ وصول کرتا ہے؟
یورینیم کی افزودگی کا حق
ایران بارہا اس بات پر زور دیتا رہا ہے کہ یورینیم کی افزودگی کے اس کے حق پر ’کوئی بات ’ نہیں ہوسکتی، جبکہ امریکی چیف مذاکرات کار سٹیو وٹکوف نے اسے ایک ’ریڈ لائن‘ قرار دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: نئے مالی سال کا بجٹ ۲ جون کو پیش ہوگا
امریکی عہدہ داروں کا بیان
اتوار کے روز وٹکوف نے کہا تھا کہ امریکہ ’یورینیم افزودگی کی ایک فیصد صلاحیت کی بھی اجازت نہیں دے سکتا۔ ایران کے وزیر خارجہ اور چیف مذاکرات کار عباس عراقچی نے ’ایکس‘ پر ایک پوسٹ میں کہا تھا کہ اگر امریکہ واقعی یہ یقینی بنانا چاہتا ہے کہ ایران جوہری ہتھیار حاصل نہ کرے تو ایک معاہدہ ممکن ہے اور ہم ایک سنجیدہ بات چیت کے لئے تیار ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ایران میں یورینیم کی افزودگی معاہدے کے ساتھ یا اس کے بغیر جاری رہے گی۔
یہ بھی پڑھیں: اسرائیل کو روکنا ضروری ہے: طیب اردوان کا ایرانی ہم منصب اور سعودی ولی عہد سے ٹیلیفونک رابطہ
ایرانی سفارتکاروں کی جانب سے پیشکش
ایرانی سفارت کاروں نے کہا ہے کہ تہران اس بات کے لئے تیار ہو سکتا ہے کہ وہ کچھ عرصے کے لئے اس بات پر پابندیاں قبول کرے کہ وہ یورینیم کو کتنی مقدار میں اور کس سطح تک افزودہ کرے گا۔
یہ بھی پڑھیں: ایبٹ آباد یونیورسٹی، میوزیکل نائٹ کیخلاف احتجاج کرنیوالے 7 طلبا کا داخلہ منسوخ
امریکی صدر کی پالیسی
جنوری میں دوبارہ صدارت سنبھالنے کے بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایران کے خلاف اپنی ’زیادہ سے زیادہ دباو¿‘ کی پالیسی کو دوبارہ نافذ کیا ہے۔ اگرچہ وہ جوہری سفارتکاری کی حمایت کرتے ہیں، لیکن انہوں نے خبردار بھی کیا ہے کہ اگر مذاکرات ناکام ہوئے تو ممکنہ فوجی کارروائی خارج از امکان نہیں۔
ایران اور امریکہ کے تعلقات میں تناؤ
حالیہ دنوں میں، ٹرمپ نے خبردار کیا کہ اگر ایرانی معاہدے کی جانب نہ بڑھے تو ’کچھ برا ہونے والا ہے‘۔ انہوں نے اس سے پہلے کہا تھا کہ امریکہ اور ایران کے درمیان ایک معاہدہ ’قریب‘ ہے، جو فوجی کارروائی کو روک سکتا ہے تاہم ایرانی حکام نے امریکی حکام کے بیانات کو ’متضاد‘ قرار دیتے ہوئے تنقید کی ہے، خاص طور پر اس بات پر کہ مذاکرات کے باوجود ایران کی تیل کی صنعت اور جوہری پروگرام کو نشانہ بنانے والی پابندیاں جاری ہیں۔
عباس عراقچی نے اتوار کے روز کہا تھا کہ تہران محسوس کرتا ہے کہ ہمارے امریکی ہم منصب جو کچھ عوام میں کہتے ہیں اور جو کچھ نجی طور پر کہتے ہیں، اس میں واضح اختلاف ہے۔