بہادری کے خوب چرچے ہوئے اور لوک فنکاروں نے اسی واقعہ سے متاثر ہوکر اپنا مشہور زمانہ سندھی گیت ”ہو جمالو“ تخلیق کیا جو اسی واقعہ کے گرد گھومتا تھا

مصنف کی شناخت

مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 132

یہ بھی پڑھیں: باجوڑ: وزیراعظم کے مشیر و رکن قومی اسمبلی مبارک زیب کے گھر کے قریب دھماکا

رہنمائی اور ثقافت

مقامی باشندوں میں اس کی بہادری کے خوب چرچے ہوئے اور لوک فنکاروں نے اسی واقعہ سے متاثر ہوکر اپنا مشہور زمانہ سندھی گیت ”ہو جمالو“ تخلیق کیا جو اسی واقعہ کے گرد گھومتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ضرورت کے مطابق اس میں ردو بدل کیا جاتا رہا اور یوں یہ گیت آج کے زمانے میں بھی زندہ ہے۔ سندھ دھرتی کا یہ سب سے مشہور اور مقبول لوک گیت قرار پایا ہے، جو اب سندھ سے نکل کر ساری پاکستان میں پھیل گیا ہے۔ لوگ کسی بھی قسم کی خوشیوں ملنے پر اسے لہک لہک کر گاتے ہیں اور اس کے ساتھ ایک خوبصورت رقص بھی پیش کرتے ہیں۔

ہومنھنجو کھٹی آیو خیر ساں، ہو جمالو۔ (جیت کر آیا، وہ جمالو)
ہوجیکوسکھر واری پل تاں، ہو جمالو۔(سکھر والے پل سے، وہ جمالو)

یہ بھی پڑھیں: خطرہ: اسرائیل 7 اکتوبر کو ایران پر حملے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے، امریکی میڈیا

کہانیوں کا جال

اس پل کے بارے میں ایک اور بچگانہ سی کہانی بھی گھڑ لی گئی تھی جس کا کوئی سَر پیر ہی نہیں تھا۔ کہا یہ گیا کہ اس پل کو ایک مسلمان کاریگر نے تعمیر کیا تھا اور اس کی بناوٹ کا راز اور پل کی مرکزی کنجی بھی اسی کے پاس تھی۔ انگریز انجینئروں نے ایک سازش کے تحت اس کے دونوں ہاتھ کٹوا دئیے تاکہ وہ دوبارہ کوئی ایسا پل نہ تعمیر کر سکے، اور وہ کنجی بھی بہتے دریا میں پھینک دی۔ یہ کہانی عام بندے کو تو ہضم نہیں ہوتی تھی، تاہم جب مقامی باشندے اکٹھے بیٹھے ہوتے تو اس کی منظر کشی اتنی تفصیل سے کرتے کہ یہ من گھڑت کہانی گھنٹوں تک ختم نہ ہوتی تھی۔ تعلیم یافتہ طبقہ تو اس سے متاثر نہیں ہوتا تھا، لہٰذا وہ سن کر مسکرا دیتے۔

یہ بھی پڑھیں: پنجاب قائد اعظم گیمز کا پہلے بھی فاتح رہا ہے اور اب بھی کامیابی کا تسلسل برقرار رکھیں گے، خضر افضال چودھری

تاریخی اہمیت

ایک بات البتہ حقیقت تھی کہ یہ تکنیکی طور پر اپنے وقت کا پورے دنیا میں سب سے بڑا اور لمبا بغیر ستونوں والاریلوے پل تھا۔ 1889ء میں اس پل کی تکمیل کے ساتھ ہی کراچی سے لاہور اور کوئٹہ سے لاہور کا براہ راست ریل گاڑی کا رابطہ مکمل ہو گیا تھا۔ اب یہ ریل گاڑیاں بغیر کسی رکاوٹ کے کراچی، کوٹری، سکھر، ملتان اور لاہور سے ہوتی ہوئی دہلی کی طرف مرکزی ہندوستان کو نکل جاتی تھیں۔ کچھ ریل گاڑیاں تو آگے پشاور تک بنی ہوئی مرکزی لائن پر اٹک کے مجوزہ پل کو بھی ہاتھ لگا کر واپس آجاتی تھیں۔

انڈس سٹیم فلوٹیلا کمپنی کے سٹیمر بھی قریب المرگ تھے، کیونکہ ریل گاڑی اب ان تمام مقامات پر پہنچ رہی تھی جہاں پہلے صرف یہ سٹیمر ہی جاتے تھے۔ جب یہ سلسلہ بند ہوا تو کمپنی والے ان سٹیمر کو دریاؤں کے کنارے روتا بلکتا چھوڑ کر چلتے بنے۔ جب دریا بند ہوئے تو ان کے خشک ہو جانے والے پاٹوں میں کھیتی باڑی شروع ہو گئی، تب یہ بھی ان کھیتوں میں جا گھسے جہاں ان کی گلی سڑی اور زنگ آلود لاشیں آج بھی جا بجا بکھری نظر آجاتی ہیں۔ انہوں نے کوئی ساٹھ برس تک کمپنی کا خوب ساتھ نبھایا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پاکستان میں جمہوریت ہار گئی، خود کو پارلیمنٹیرین کہتے شرم آتی ہے، اسد قیصر

انجینئرنگ کا خواب

بالآخر خدا خدا کرکے کوٹری۔ حیدرآباد کا عظیم پل بھی 1900ء میں مکمل ہو گیا، اس کے ساتھ ہی روہڑی جنکشن اور کوٹری جنکشن کے بیچ ریلوے لائن بھی فعال ہوگئی۔ اب کراچی سے شمال کی طرف جانے والی گاڑیوں کو لاڑکانہ اور سکھر کی طرف جانے کی ضرورت نہیں تھی۔ بلکہ وہ براہ راست کوٹری اور حیدرآباد سے ہوتے ہوئے روہڑی پہنچتیں اور وہاں سے آگے اپنا پرانا راستہ اختیار کر لیتی تھیں۔ یوں انگریز حکومت کا پچاس برس پہلے شمالاً جنوباً ایک مرکزی لائن کی تعمیر کا دیکھا ہوا خواب پورا ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی کراچی سے مغرب یعنی کوئٹہ اور چمن جانے والی لائن بھی کھل گئی تھی۔

نوٹ

نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

Related Articles

Back to top button
Doctors Team
Last active less than 5 minutes ago
Vasily
Vasily
Eugene
Eugene
Julia
Julia
Send us a message. We will reply as soon as we can!
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Mehwish Sabir Pakistani Doctor
Ali Hamza Pakistani Doctor
Maryam Pakistani Doctor
Doctors Team
Online
Mehwish Hiyat Pakistani Doctor
Dr. Mehwish Hiyat
Online
Today
08:45

اپنا پورا سوال انٹر کر کے سبمٹ کریں۔ دستیاب ڈاکٹر آپ کو 1-2 منٹ میں جواب دے گا۔

Bot

We use provided personal data for support purposes only

chat with a doctor
Type a message here...