محافظ ہی لٹیرے بن گئے؟ کراچی میں وردی پوش اہلکاروں کا چھاپہ، شہری کے گھر سے کروڑوں روپے کی ڈکیتی

کراچی میں قانون نافذ کرنے والے اداروں پر سنگین سوالات
کراچی (آئی این پی) میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کے بارے میں ایک اور سنگین سوال اٹھ کھڑا ہوا ہے، جہاں وردی میں ملبوس اہلکاروں اور ان کے ہمراہ موجود پرائیویٹ افراد نے مبینہ طور پر ایک شہری کے گھر پر چھاپہ مار کر ایک کروڑ 28 لاکھ 70 ہزار 540 روپے مالیت کی ڈکیتی کی۔ متاثرہ شہری نے اس واقعے پر اعلیٰ حکام سے فوری انصاف کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اپوزیشن لیڈر عمر ایوب کے قافلے پر پولیس کی شیلنگ
متاثرہ شہری کی شکایت
محمد شفیع ولد خالد محمد، جو چھالیہ، سگریٹ اور متعلقہ مصنوعات کی سپلائی کا کاروبار کرتے ہیں، نے بتایا کہ 22 اپریل 2025 کی رات تقریباً 12:40 بجے جب وہ گھر سے باہر تھے، پولیس کی وردی میں ملبوس 18 اہلکاروں اور 10 سول کپڑوں میں ملبوس افراد نے ان کے گھر پر دھاوا بول دیا۔ ان کی اہلیہ گھر پر اکیلی تھیں، جنہیں اسلحے کی نوک پر خاموش رہنے کا کہا گیا اور جان سے مارنے کی دھمکیاں دی گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: پولو کے نامور کھلاڑی محمد حسین کا مبینہ قتل،لاش دریا سے مل گئی
قانون کی خلاف ورزی
متاثرہ شخص کے مطابق، ان اہلکاروں نے بغیر کسی وارنٹ، بغیر لیڈی پولیس اور قانونی اجازت کے گھر کی تلاشی لی اور قیمتی اشیاء بشمول چھالیہ زیڈ 21، اداب گٹکا، سفینہ و دیگر برانڈز کی سگریٹ، نقد رقم 6 لاکھ روپے، ایک سونے کا لاکٹ اور دو سونے کی انگوٹھیاں زبردستی اٹھا کر ساتھ لے گئیں۔ اہلکار خود کو لیاقت آباد تھانے کا عملہ ظاہر کر رہے تھے۔ محمد شفیع کا کہنا ہے کہ جب وہ رات 4 بجے واپس پہنچے تو تین پولیس موبائلز اور چار پرائیویٹ گاڑیاں موقع پر موجود تھیں، جو کچھ دیر بعد روانہ ہو گئیں۔ یہ پورا واقعہ قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور کےعلاقے والٹن، برکی اور ڈیفنس میں شدید فائرنگ، سائرن بج اٹھے
حکام سے درخواست
متاثرہ شہری نے آئی جی سندھ، ڈی آئی جی کراچی اور دیگر اعلیٰ حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ واقعے کی غیر جانبدارانہ اور شفاف تحقیقات کی جائیں، ملوث اہلکاروں اور پرائیویٹ افراد کے خلاف ڈکیتی، گھر میں زبردستی داخل ہونے اور جان سے مارنے کی دھمکیوں کے تحت مقدمہ درج کیا جائے۔ انہیں لوٹا گیا مال واپس دلوایا جائے اور مکمل تحفظ اور انصاف فراہم کیا جائے۔
سوشل میڈیا پر ردعمل
تاحال پولیس کی جانب سے واقعے پر کوئی باضابطہ مؤقف سامنے نہیں آیا۔ تاہم، واقعے نے شہری حلقوں میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے اور سوشل میڈیا پر پولیس گردی کے خلاف آوازیں تیز ہو گئی ہیں۔