انسانی فکر کا سفر، قدیم فلسفہ اور جدید نفسیات کا سنگم

فکر کا سفر
تحریر :رانا بلال یوسف
فکر ایک چراغ ہے، اور انسان ازل سے اس چراغ کی روشنی میں خود کو تلاش کرتا آیا ہے۔ وقت کے ساتھ یہ چراغ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں منتقل ہوتا رہا۔ کبھی سقراط کی سوالوں بھری انگلیوں میں، کبھی افلاطون کے خیالی تصورات میں، اور کبھی ارسطو کی منطق بھری نگاہوں میں۔ پھر وقت نے کروٹ لی اور یہی روشنی ابن سینا، الفارابی اور ابن خلدون کے علمی سفر کی ہمسفر بنی۔ اسی فکری سلسلے نے فرائیڈ، یونگ اور ایڈلر کے ذریعے انسان کے باطن میں جھانکنا سکھایا۔ یہ روشنی کبھی کائنات کو سمجھنے کے لیے تھی، اور کبھی خود کو جاننے کے لیے۔ یہی انسانی فکر کا سفر ہے۔ سوال سے آغاز اور شعور تک کا راستہ جو آج بھی جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: چکن کی قیمت کا تعین نہ ہو سکا، دکانداروں نے انتظامیہ کے دعوے ہوا میں اڑ دئیے، مرضی کے ریٹ مقرر
سقراط کی اہمیت
یونان وہ پہلا مقام تھا جہاں انسان نے صرف ستاروں کو نہیں دیکھا، بلکہ خود کے اندر جھانکنے کی کوشش کی۔ سقراط وہ پہلا شخص تھا جس نے بتایا کہ اصل علم وہ ہے جو انسان کو اپنی لاعلمی کا احساس دلا دے۔ وہ سوال کرتا، سنتا اور پھر خاموشی سے ایسا جملہ کہہ جاتا جو دل میں اتر جاتا۔ "ایک غیر جانچی گئی زندگی، جینے کے قابل نہیں" یہ محض ایک فقرہ نہیں، ایک آئینہ تھا جس میں انسان نے پہلی بار خود کو دیکھا۔ سقراط نے علم کو مدرسے سے نکال کر بازار میں لا کھڑا کیا، اور یہی اس کا سب سے بڑا کارنامہ تھا۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈا پور بشریٰ بی بی کو غلط گائیڈ کر رہے ہیں
افلاطون کا نظریہ
افلاطون نے اپنے استاد کی روش پر چلتے ہوئے انسانی ذہن کو تخیل کی بلند فضاءمیں لے جایا۔ وہ کہتا تھا، یہ دنیا جو ہم دیکھتے ہیں، اصل نہیں۔ اصل تو وہ ہے جو ہم محسوس کرتے ہیں، سوچتے ہیں، یا خواب میں دیکھتے ہیں۔ "The Republic" میں اس نے ایک ایسی ریاست کا تصور پیش کیا جہاں بادشاہ فلسفی ہو، اور انصاف ہر دروازے پر دستک دیتا ہو۔ افلاطون نہ صرف فلسفی تھا، بلکہ معلم، ریاضی دان اور سیاسی مفکر بھی تھا۔
یہ بھی پڑھیں: خاتون کو گھر کے دروازے پر پارسل موصول ، کھول کر دیکھا تو ایسی چیز نکل آئی کہ ہوش اڑ گئے
ارسطو کی منطق
ارسطو نے افلاطون کی خیالی دنیا سے نکل کر حقیقت کی زمین پر قدم رکھا۔ وہ کہتا تھا، صرف سوچنے سے سچ نہیں ملتا، سچ کو پرکھنا، آزمانا اور ثابت کرنا پڑتا ہے۔ اس نے منطق کو ترتیب دیا، علم کو خانے میں ڈالا اور کہا کہ انسان کا اصل کمال توازن میں ہے۔ "Nicomachean Ethics" میں وہ بتاتا ہے کہ بہترین زندگی وہ ہے جو میانہ روی سے گزرتی ہے۔ ارسطو نے فلسفے کو زندگی کے رہنما اصولوں سے جوڑ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ریلوے کی آمدنی تاریخ کی بلند ترین سطح پر
اسلامی فلسفی اور جدید سوچ
یونانی فلسفے کی روشنی جب اسلامی دنیا میں پہنچی تو اس نے ایک نیا فکری افق پیدا کیا۔ ابن سینا ان عظیم مفکرین میں شامل ہے، جس نے فلسفہ اور طب کو اس انداز سے یکجا کیا کہ انسانی جسم اور روح کے درمیان نیا ربط پیدا ہوا۔ "The Book of Healing" صرف فلسفے کی کتاب نہیں، بلکہ ایک فکری پل ہے جو مادہ اور روح کو جوڑتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آپ ان رسیوں کو کھولنے کا آغاز کر سکتے ہیں جن کے ذریعے اپنے ماضی کے ساتھ منسلک رہتے ہیں اوربے مصرف فقرات سے نجات حاصل کر سکتے ہیں
معاشرتی فلاح کی بنیاد
اسی فکری تسلسل میں الفارابی آتا ہے، جس نے افلاطون کی مثالی ریاست کے تصور کو اسلامی معاشرت کے تناظر میں ڈھالا۔ وہ عقل اور وحی کو ہم سفر مانتا تھا نہ کہ متصادم۔ الفارابی کے نزدیک علم صرف فرد کی بہتری کا ذریعہ نہیں بلکہ معاشرتی فلاح کی بنیاد ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ایران کے نامور آرٹسٹ سعید کامرانی کے فن پاروں کی نمائش
ابن خلدون کی بصیرت
ابن خلدون وہ مفکر ہے جس نے تاریخ کو صرف بادشاہوں کی فہرست نہیں مانا، بلکہ انسانی رویئے، معیشت، ماحول اور ثقافت کے باہم تعامل کے طور پر دیکھا۔ "Muqaddimah" آج بھی دنیا میں سوشیالوجی کی اولین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حکومت نے پٹرول مہنگا کردیا
جدید نفسیاتی فکر
پھر انسان کی نگاہ آسمانوں سے ہٹ کر اپنے اندر کی خاموشیوں کی طرف مڑ گئی۔ انیسویں اور بیسویں صدی میں فلسفہ کائنات سے ہٹ کر انسان کے ذہن، یادداشت، خوف، خواب اور خواہشات کی طرف متوجہ ہوا۔ یہاں سے جدید فلسفہ، بالخصوص نفسیاتی فکر کا آغاز ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: زبان صاف کرنے کی عادت کا بڑا نقصان سامنے آگیا، ماہرین نے خبردار کردیا
فرد کی شناخت
سگمنڈ فرائیڈ نے لاشعور کے دروازے کھولے اور بتایا کہ ہمارے افعال، خواب اور رویئے دراصل اندرونی خواہشات اور دبی ہوئی کیفیات سے جُڑے ہوتے ہیں۔ کارل یونگ نے اس باطنی سفر کو اجتماعی لاشعور سے جوڑا۔ ایڈلر نے اس فکری سلسلے کو ایک اور جہت دی۔
یہ بھی پڑھیں: علیزہ شاہ کی مختصر عرصے بعد سوشل میڈیا پر دوبارہ واپسی، ویڈیو وائرل
نفسیاتی مفکرین کی اہمیت
آج کی دنیا میں جو موٹیویشنل ادب اور سیلف ہیلپ کتابیں کروڑوں افراد کی سوچ اور زندگی بدل رہی ہیں، ان کے پیچھے انہی مفکرین کا فکری عکس نمایاں ہے۔ وہ انسان کو اس کے باطن سے جوڑتے ہیں، اور یہی جدید فلسفے کی اصل روح ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ہر کسی کے پاس لندن جانے کا آپشن نہیں ہوتا، سیمی راحیل کا لاہور میں سموگ پر طنزیہ تبصرہ
آج کے چیلنجز
آج جب انسان انگزائٹی، ڈپریشن، شناختی بحران، خود شک اور روحانی خلاء جیسے مسائل سے دوچار ہے، تو یہی نفسیاتی مفکرین اسے امید، فہم اور شفا کا راستہ دکھاتے ہیں۔
نتیجہ
یہ کالم صرف ایک فکری جائزہ نہیں، بلکہ ایک یاد دہانی ہے — کہ انسانی شعور کا سفر سوال سے شروع ہوتا ہے، لیکن اس کا اختتام صرف جواب پر نہیں، بلکہ خودی کی بیداری پر ہوتا ہے۔
نوٹ: ادارے کا لکھاری کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں