وہ بڑے سلجھے ہوئے، سادہ اور جہاں دیدہ انسان تھے، سفید کرتا لاچہ پہنتے، معمولی تعلیم کے باوجود سیانی گفتگو کرتے، ان کی محفل میں سیکھنے کو بہت کچھ ہوتا

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 176
ڈی سی کا دورہ
میں مقرہ وقت سے پہلے چڑیاولہ پہنچ گیا، جہاں یونین کونسل کے لان میں کرسیاں تیار کی گئی تھیں اور مقامی لوگوں کی آمد جاری تھی۔ چیئرمین چوہدری فتح خاں بھی وہاں موجود تھے۔ وہ ایک ذہین، سادہ اور جہاں دیدہ انسان تھے، ہمیشہ سفید کرتا اور سفید لاچہ پہنے رہتے تھے۔ معمولی تعلیم کے باوجود، ان کی گفتگو بہت سیانی ہوتی تھی۔ ان کی محفل کبھی بوریت پیدا نہیں کرتی تھی بلکہ سیکھنے کا موقع فراہم کرتی تھی۔
شکایات کا موضوع
میں نے ڈی سی کے دورے کے حوالے سے ان سے پوچھا، "چوہدری صاحب! لوگوں کی شکایت کا تو کوئی امکان نہیں؟" انہوں نے مسکرا کر جواب دیا، "پتر! میں دوسرا بار بلامقابلہ منتخب ہوا ہوں۔ اس کی تو کوئی وجہ ہوگی۔ تم فکر نہ کرو۔ شکایات صرف پولیس یا محکمہ مال کی ہوں گی۔" اس جواب نے مجھے مطمئن کیا اور میں نے سوچا کہ جس شخص نے آٹھ سال تک بلا مقابلہ انتخابی کامیابی حاصل کی ہو، اس میں کچھ خوبیاں تو ضرور ہوں گی۔
چراغ تلے اندھیرا
ڈی سی پہنچ گئے۔ راجہ یعقوب ان کی گاڑی چلا رہے تھے۔ تلاوت اور نعت کے بعد کارروائی کا آغاز ہوا۔ چوہدری فتح کا کہنا درست تھا کہ شکایات صرف پولیس اور مال کے محکموں کی تھیں، جبکہ ڈی سی کہتا رہا کہ "یونین کونسل کی کوئی شکایت نہیں۔" مجمع خاموش رہا۔ ڈی سی نے کھلی کچہری میں رشوت لینے اور دینے والوں کے بارے میں اخلاقیات کا لیکچر دینا شروع کیا، جبکہ اس کے پیچھے بیٹھے ان کے پرسنل اسٹنٹ ملک اکرم سرکاری اعمال سے گولڈ لیف کی ڈبیاں اور پیسے لے رہے تھے۔
نیکی اور بدی
اس ملک میں وزیر اعظم سے لے کر چھوٹے اہلکار تک نیکی اور بدی کی باتیں کرتے ہیں، حالانکہ یہ ملک حج اور عمرہ کرنے والوں کی تعداد میں سب سے اوپر ہے، مگر بد عنوانی، ملاوٹ، جھوٹ بولنے اور ذخیرہ اندوزی کی لعنتوں میں بھی پہلے نمبر پر ہے۔ ہم یہ حج اور عمرہ کے موقع پر چڑھاوے چڑھا کر کس کو دھوکا دے رہے ہیں؟
کھلی کچہری کا اختتام
کھلی کچہری ختم ہونے کے بعد، ہم زکوٰۃ کوآٹرز کی سائیٹ پر پہنچے۔ ممتاز عزیز اور اسٹنٹ انجینئر سرور وہاں پہلے سے موجود تھے۔ ڈی سی نے ایک کوآٹر میں گزر کر دروازوں کا جائزہ لیا۔ اس نے دروازوں کو ہاتھ کی انگلیوں سے کھڑکھڑایا جس پر لوہے کے دروازے نے ٹین کی آواز نکالی۔ جب ڈی سی نے گاڑی کی چابی سے پلستر چیک کرنے کی کوشش کی تو چابی پلستر میں جا گھسی۔ انہوں نے میری طرف دیکھ کر کہا، "آپ کو یہ نظر نہیں آیا۔" لیکن اس سے پہلے میں کچھ بولتا، راجہ یعقوب بولے، "سر! یہ نئے افسر ہیں، جوائن کر کے ابھی ٹریننگ پر آئے ہیں۔" میں نے جواب دیا، "جی، دروازے آج لگنے شروع ہوئے ہیں اور پلستر کے حوالے سے میرے ریمارکس رجسٹر میں درج ہیں۔" اس پر راجہ یعقوب نے کہا، "شہزاد! رجسٹر کی ضرورت نہیں۔" اور اس نے اپنا غصہ دونوں انجینئرز پر نکال دیا۔ (جاری ہے)
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔