عمران خان کے لیے خاموش سفارتکاری؟ امریکہ سے اب کی بار تازہ کاوشوں کے سلسلے میں پاکستان پہنچنے والوں کا پتہ چل گیا

اسلام آباد میں نئی کوششیں
اسلام آباد (ویب ڈیسک) سینئر صحافی انصار عباسی نے کہا ہے کہ عمران خان کیلئے خاموش سفارتکاری میں شامل امریکا میں مقیم پاکستانی ڈاکٹرز اور تاجر پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے بانی کی رہائی کی تازہ کوششوں کے سلسلے میں ایک مرتبہ پھر پاکستان پہنچ گئے۔ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں حکام کے ساتھ رابطوں کی کوشش کے ساتھ تجزیہ کار اس بات پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں کہ آیا یہ کوششیں مفاہمت کے نئے مرحلے کا اشارہ دیتی ہیں یا پھر پی ٹی آئی ایک اور موقع ضائع کر دے گی۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی میں ذاتی دشمنی پر رشتے دار نے گھر میں گھس کر 6 سالہ بچے کو قتل کردیا، بہن اور ماں زخمی
ڈاکٹرز اور تاجروں کا وفد
روزنامہ جنگ کے لیے انہوں نے لکھا کہ پاکستانی ڈاکٹروں اور تاجروں کے ایک گروپ نے چند ماہ قبل اسلام آباد کے دورے کے دوران ایک سینئر عہدیدار کے ساتھ ساتھ عمران خان سے جیل میں ملاقات کی تھی۔ یہ گروپ اس وقت لاہور میں موجود ہے تاہم، ذرائع کا کہنا ہے کہ وفد اب تک عمران خان سے ملاقات میں کامیاب نہیں ہو پایا، اس بات کی تصدیق بھی نہیں ہوئی کہ کسی اہم عہدیدار کے ساتھ اس وفد کی کوئی بات چیت ہوئی ہے یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کے ہاتھوں ہیلری کی شکست پر 2 سال سو نہیں پایا،موڈ ہمیشہ خراب رہتا، بل کلنٹن نے تہلکہ خیز انکشاف کردیا
آنے والے رابطوں کی اہمیت
اس وفد کیلئے آئندہ ہفتے کے دوران ہونے والے رابطوں کو اہم سمجھا جا رہا ہے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ دورے پی ٹی آئی کے حامیوں اور بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے عمران خان کے قانونی اور سیاسی معاملات پر اثر انداز ہونے کی کوششوں کا حصہ ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: سپریم کورٹ نے عدالتی نظام میں آرٹیفیشل انٹیلی جنس کے استعمال پر اہم فیصلہ جاری کردیا
سماجی میڈیا اور سیاسی مذاکرات
حالیہ مہینوں کے دوران، کچھ غیر رسمی رابطوں کے باوجود کسی اہم پیشرفت کی اطلاع نہیں ملی۔ اس معاملے سے آگاہ ذرائع کے مطابق، ایسی کوششوں میں پیشرفت نہ صرف سیاسی مذاکرات پر منحصر ہے بلکہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا ونگ کے طرز عمل اور پارٹی کے غیر ملکی چیپٹرز، بالخصوص امریکا اور برطانیہ کے پیغامات پر بھی منحصر ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بشریٰ بی بی سے اختلافات کی خبروں پر علی امین گنڈا پور نے خاموشی توڑ دی
فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بیانات
فوجی اسٹیبلشمنٹ نے متعدد مرتبہ کہا ہے کہ وہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کرے گی، اس کی بجائے سیاسی جماعتیں اپنے مسائل آپس میں خود حل کریں۔ لیکن اس کے باوجود، پی ٹی آئی کے کچھ رہنما ایسے بیانات کے باوجود اہم عہدیداروں کے ساتھ پس پردہ بات چیت کیلئے رابطے جاری رکھے ہوئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: جے یو آئی کا کل یوم دفاع پاکستان منانے کا اعلان
عسکری قیادت پر تنقید کی رکاوٹیں
ذرائع کا کہنا ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کی جانب سے اپنے آفیشل سوشل میڈیا اکاؤنٹس اور منسلک بین الاقوامی چیپٹرز کے ذریعے عسکری قیادت پر مسلسل تنقید کسی بھی ممکنہ مفاہمت کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ فوج پر تنقید پر مبنی مہمات، غلط معلومات پھیلانا، اور بین الاقوامی لابنگ کی کوششیں بشمول واشنگٹن اور لندن پر اثر انداز ہونے کی کوششوں نے تعلقات کو مزید کشیدہ کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: آج ملک میں فی تولہ سونا 2100 روپے مہنگا ہوگیا
پارٹی کی اندرونی صورتحال
پی ٹی آئی کی دوسرے درجے کی قیادت میں سے کچھ نجی طور پر تسلیم کرتے ہیں کہ ایسے جارحانہ ہتھکنڈوں نے پارٹی کو نقصان پہنچایا ہے، خصوصاً ایسی کوششوں کو زیادہ نقصان ہوا ہے جن کا مقصد عمران خان کیلئے ریلیف کا حصول ہے۔
یہ بھی پڑھیں: علی امین گنڈاپور نے سنگجانی میں قیدی وینز پر حملہ ڈرامہ قرار دے دیا
نئی حکمت عملی کی ضرورت
پارٹی کے اندر اس بات کا اعتراف بڑھ رہا ہے کہ پارٹی کو بامعنی مذاکرات کے قابل بنانے اور کشیدگی کم کرنے کیلئے ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر اپنی جارحانہ پالیسی کو کم کرنا ہوگا۔
مبصرین کی رائے
مبصرین کا خیال ہے کہ پی ٹی آئی کے قسمت میں بہتری بالخصوص عمران خان کی مشکلات میں کمی کا انحصار پارٹی کی جانب سے مثبت رویہ اختیار کرنے، معیشت کی بہتری کی کوششوں میں خلل نہ ڈالنے اور ریاستی اداروں پر تنقید روکنے پر ہوگا۔