کیا دفاعی بجٹ میں اضافے سے دیگر منصوبے متاثر ہوں گے؟

پاکستان کا دفاعی بجٹ: تازہ صورتحال
اسلام آباد (ڈیلی پاکستان آن لائن) حالیہ پاک بھارت کشیدگی کے بعد سنجیدہ حلقوں کی طرف سے دفاعی بجٹ میں اضافے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے، کیونکہ ٹیکنالوجی تیزی سے تبدیل ہو رہی ہے۔ پاکستان نے ففتھ جنریشن طیاروں کے علاوہ دیگر اہم دفاعی آلات کی خریداری بھی کرنی ہے، جس کی وجہ سے یہ مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اگر پاکستان کے آئندہ مالی سال کی آمدن اور اخراجات کا تجزیہ کیا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ اگر دفاعی بجٹ میں اضافہ ہوتا ہے تو اس سے ترقیاتی منصوبے متاثر نہیں ہوں گے۔
یہ بھی پڑھیں: مریم نواز سے بیلجیئم کے سفیر کی ملاقات، دوطرفہ تعلقات کو مزید مضبوط بنانے پر اتفاق
ترقیاتی بجٹ میں اضافہ
مالی سال 2025-26 کے لیے وفاقی حکومت کے ترقیاتی بجٹ میں نمایاں اضافہ کیا گیا ہے، جو تقریباً ایک ہزار ارب روپے تک پہنچنے کی توقع ہے، جو گزشتہ مالی سال کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ صوبائی حکومتیں بھی ترقیاتی منصوبوں کے لیے تقریباً دو ہزار ارب روپے مختص کرنے جارہی ہیں، جو مجموعی طور پر معیشت میں سرمایہ کاری اور ترقی کے رجحان کو ظاہر کرتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: سانپ نے جاپان کی مشہور بلیٹ ٹرین سروس کا نظام درہم برہم کردیا
مالیاتی حکمت عملی میں تسلسل
جاری قومی مالیاتی کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ کے تحت وفاقی حکومت صوبوں کے مالی حصے میں کوئی کمی نہیں کرسکتی اور نہ ہی کر رہی ہے۔ اس کے برعکس، وفاق اب بھی صحت، تعلیم، زراعت اور غربت کے خاتمے جیسے متعدد شعبوں میں اخراجات جاری رکھے ہوئے ہے، حالانکہ یہ شعبے آئینی طور پر صوبائی دائرہ کار میں آتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کسانوں کو مڈل مین کے رحم و کرم پر چھوڑنے کے نتائج بہت سنگین ہوں گے‘ لاہور ہائیکورٹ
معاشی استحکام کی پیشگوئی
آئندہ مالی سال کے دوران قومی بچت اور سرمایہ کاری کی شرح میں بھی اضافہ متوقع ہے، جس سے معاشی استحکام کا تسلسل برقرار رہنے کی امید ہے۔ اسی تناظر میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے مالی سال 2025-26 میں پاکستان کی مجموعی ملکی پیداوار (جی ڈی پی) کی شرح نمو 3.6 فیصد تک پہنچنے کی پیشگوئی کی ہے، جو گزشتہ سال 2.6 فیصد رہی تھی۔ یہ بہتری کم شرح سود، سستی توانائی، اور پائیدار معاشی پالیسوں کی بدولت ممکن ہوگی۔
دفاعی اخراجات اور مالی حکمت عملی
دفاعی اخراجات میں اضافے کو بھی مجموعی مالی حکمت عملی کے اندر رکھا گیا ہے۔ مرکزی بینک کی شرح سود میں 22 فیصد سے 11 فیصد تک کمی کے باعث حکومت کے سودی ادائیگیوں کے اخراجات کم ہوکر 9800 ارب روپے سے 8685 ارب روپے تک محدود ہونے کا تخمینہ ہے۔ مزید برآں، سرکاری اداروں کی تنظیمِ نو، غیر فعال آسامیوں کے خاتمے اور مختلف محکموں کی بندش سے اضافی بچت کی جا رہی ہے۔ ان اقدامات کے ساتھ ساتھ مالی سال 2025-26 میں متوقع ٹیکس آمدن 14 ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی، جو پچھلے سال 12 ہزار 300 ارب روپے رہی تھی۔ یہ تمام عوامل دفاعی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے خاطر خواہ مالی گنجائش فراہم کرتے ہیں.