زرداری دور میں مشرف کی معزولی کی بات پر کیانی نے کیا ردعمل دیا؟ فرحت اللہ بابر کا کتاب میں انکشاف

کتاب کا تعارف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن) فرحت اللہ بابر کی جانب سے لکھی گئی کتاب ’دی زرداری پریذیڈنسی‘ میں اہم انکشافات کیے گئے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: لاڑکانہ اور سکھر میں پی ایم وائی پی-لاہور قلندرز ٹیلنٹ ہنٹ: 15 ہزار سے زائد نوجوانوں کی شرکت
جنرل پرویز مشرف کا استعفیٰ
کتاب میں یہ ذکر کیا گیا ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کی رضا مندی حاصل کرنے کے بعد جنرل پرویز مشرف کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔ نجی ٹی وی جیو نیوز کے مطابق، فرحت اللہ بابر نے اپنی یادداشت میں یہ بتایا کہ کس طرح ایوان صدر کے باہر ٹرپل ون بریگیڈ تعینات کرکے دباﺅ ڈالا گیا تاکہ چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو بحال کیا جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: اسٹیبلشمنٹ اگربات کرنا چاہتی ہے توکرے لیکن پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ سے بات کرنا چاہتی ہے تو ٹی وی پرآکر کہے سویلین بالادستی کا بیانیہ جھوٹا تھا:حذیفہ رحمان
ایوان صدر کا دباؤ
یہ کتاب زرداری کی پہلی مدت (2008 تا 2013) کے دوران صدارتی ترجمان کی حیثیت سے حالات و واقعات کا مشاہدہ کرنے کے بعد لکھی گئی ہے۔ کتاب میں بتایا گیا ہے کہ زرداری نے پرویز مشرف کو معزول کرنے کے سلسلے میں پہلے جنرل کیانی کے ممکنہ ردعمل کا اندازہ لگایا۔ جنرل کیانی نے اعتراض نہ کیا اور آفتاب شعبان میرانی کو اگلا صدر بنانے کی تجویز بھی دی۔
یہ بھی پڑھیں: سٹیج اداکارہ سے 3 افراد کی مبینہ اجتماعی زیادتی ، متاثرہ ہسپتال منتقل
مواخذے کا مطالبہ
زرداری نے اپنے بااعتماد پارٹی ارکان کو صوبائی اسمبلیوں میں پرویز مشرف کے مواخذے کا مطالبہ کرنے کی قراردادیں پیش کرنے کی ہدایت کی۔ میجر جنرل (ر) محمود علی درانی کے ذریعے ایک پیغام بھیجا گیا جس میں پرویز مشرف پر زور دیا گیا کہ وہ مستعفی ہو جائیں یا مواخذے کا سامنا کریں۔ پرویز مشرف ابتدا میں راضی نہ ہوئے لیکن بعد میں چند ہفتوں بعد مستعفی ہوگئے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیراعلیٰ مریم نواز کی زیرصدارت کمشنر اور ڈپٹی کمشنر میٹنگ کا 4 گھنٹے طویل سیشن، 17 اضلاع میں بیوٹیفکیشن پراجیکٹس کی منظوری، بڑے شہروں کو 1100 الیکٹرک بسیں فراہم کرنے کا اعلان
نواز شریف کی صدارت کی خواہش
کتاب میں یہ بھی ذکر کیا گیا ہے کہ نواز شریف ن لیگ اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کے دوران بھی صدارت کے خواہش مند تھے۔ ایک غیر رسمی گفتگو میں نواز شریف نے زرداری سے کہا کہ میری پارٹی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہئے، جس پر زرداری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ میری پارٹی بھی سمجھتی ہے کہ مجھے صدر بننا چاہئے۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعلیٰ مریم نواز کی قلات میں دہشتگردی کی شدید مذمت، قیمتی انسانی جانوں کے ضیاع پر اظہار افسوس
عدلیہ کے ساتھ تنازعہ
کتاب کے چوتھے حصہ میں زردای کے عدلیہ کے ساتھ تصادم کا احاطہ کیا گیا ہے۔ فرحت اللہ بابر کے مطابق بینظیر بھٹو اور نہ ہی آصف زرداری نے جسٹس افتخار چودھری کی حمایت میں کسی طرح کا اظہار خیال کیا۔ زرداری کی رائے تھی کہ جسٹس چودھری آزادی کی آڑ میں دیگر مفادات کی تکمیل کے لیے بھی کام کرتے تھے۔
مارچ کا دباؤ
زرداری کو جسٹس چودھری کی بحالی کا وکالت کرتے ہوئے لاہور سے لانگ مارچ کے دوران اپنے وزراء حتیٰ کہ وزیراعظم کے دباؤ کا سامنا کرنا پڑا۔ تاہم زرداری شروع میں ثابت قدم رہے۔ ٹرپل ون بریگیڈ کی تعیناتی ایوان صدر کے اندر اس رات ہوئی جس رات مارچ اسلام آباد کے قریب پہنچا۔ فرحت اللہ بابر نے لکھا کہ اس ممکنہ چال نے شاید فوجی قبضے کا تاثر پیدا کیا ہو، لیکن ایسا بالکل نہیں تھا۔