جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں، 11 بجے ہسپتال جاتا، سب مل کر چائے پیتے، ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر رہتا اور “ہم رنگ” کھیلتے، ہارنے والی ٹیم چرغہ منگواتی
			مصنف کی معلومات
مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 182
یہ بھی پڑھیں: مقبوضہ غزہ پٹی کے حوالے سے اسرائیل کے خفیہ مقاصد بے نقاب
اجلاس طلب کرنا
دفتر واپس جا کر اگلے روز تمام سیکرٹری یونین کونسلز کا اجلاس طلب کیا اور مشتاق کی یونین کونسل میں جو دیکھا تھا ان کے سامنے رکھا اور انہی سے رائے طلب کی کہ کیا کرنا چاہیے۔ میرا یقین ہے کہ "مشاورت کے عمل سے جماعت اور ساتھیوں میں اتحاد پیدا ہوتا ہے۔" مشتاق کے اپنے ساتھیوں کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور اس کے والد مرحوم کی وجہ سے بھی لوگ اس کی عزت کرتے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: انتظامیہ کی پھرتیاں، وزیر آباد میں مریم نواز کے آنے سے پہلے ریلیف کیمپ قائم کیا گیا، دورے کے بعد کیمپ ختم، سامان واپس بھجوادیا گیا۔
اجلاس کا نتیجہ
سب نے متفقہ طور پر کہا؛ "سر! اسے ایک موقع دیں، یہ تمام ریکارڈ اپ ڈیٹ کرے گا۔" میں نے ان کی بات سے اتفاق کرتے کہا؛ "پندرہ دن کا وقت دیتا ہوں۔ آپ میں کچھ سیانے لوگ اس کی مدد کریں اور یہ ریکارڈ اپ ڈیٹ کرکے اطلاع کرائے، اس کے بعد فیصلہ ہوگا کہ کیا کارروائی کرنی ہے یا نہیں۔"
مختصر یہ کہ پندرہ بیس دن میں مشتاق کا ریکارڈ اپ ڈیٹ ہوا۔ غلام محمد نے سب اچھا کی رپورٹ کی۔ جرمانے کے طور پر مشتاق نے سب کو میاں جی دال کھلائی۔
یہ بھی پڑھیں: بھارت کے پہلے 2، اب 6 جہاز گرائے، اگلی بار 60 اور 600 بھی گرا سکتے ہیں: مصدق ملک
یقین اور ساکھ
مجھے یہ فائدہ ہوا کہ سب کو معلوم ہو گیا کہ یہ شہری بابو کبھی بھی کہیں بھی پہنچ سکتا ہے، لہذا اس سے جھوٹ بولنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مشتاق کا ریکارڈ جس طرح سے مکمل کرایا، میرے حوالے سے یہ بات بھی واضح کر دی کہ یہ شخص کسی کی مجبوری سے فائدہ اٹھانے والا نہیں ہے بلکہ مل کر کام کرنے پر یقین رکھتا ہے۔ ان باتوں نے آگے چل کر میری اچھی ساکھ بنانے میں بہت مدد کی۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان نے اپنا پہلا ہائپر اسپیکٹرل سیٹلائٹ HS-1 کامیابی کے ساتھ چین سے خلا میں روانہ کردیا
بنیادی مرکز صحت کا دورہ
ایک دن ادریس بھائی دو پہر کے وقت آئے اور مجھے اپنے ساتھ بنیادی مرکز صحت لالہ موسیٰ لے گئے، جو میرے دفتر سے تقریباً ملحقہ ہی تھا۔ بنیادی صحت مرکز کے انچارج ڈاکٹر سہیل تھے جبکہ چائیلڈ سپیشلسٹ ڈاکٹر شفقت محمود اور تیسرے ڈاکٹر خالد منہاس تھے۔ چند ہی ملاقاتوں میں ہماری بے تکلفی ہو گئی۔
یہ بھی پڑھیں: سول نافرمانی کی تحریک بارے عمران خان کے فیصلے پر عمل کرینگے: علی امین گنڈاپور
دوستی کی ابتدا
اس زمانے میں میرے دفتر میں زیادہ کام نہ تھا اور ہسپتال میں بھی کم مریض آتے تھے۔ 11 بجے میں ہسپتال جاتا، سب مل کر چائے کا کپ پیتے، ایک ڈاکٹر ڈیوٹی پر رہتا اور "ہم رنگ" (تاش کا ایک کھیل) کھیلتے۔ ہارنے والی ٹیم چرغہ منگواتی۔
یہ بھی پڑھیں: وزارت قانون کی ججز ٹرانفر کیلئے سمری میں تضاد ہے، وکیل منیر اے ملک
مزید ڈاکٹروں کا اضافہ
2 بجے واپس اپنے دفتر آ جاتا تھا۔ ڈاکٹر شفقت کا کچھ عرصہ بعد تبادلہ لالہ موسیٰ سے پانچ کلو میٹر دور بنیادی مرکز صحت "گنجہ" ہو گیا۔ وہ وہاں سے بھی گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تاش کھیلنے لالہ موسیٰ پہنچ جاتے۔ ان کی جگہ ڈاکٹر خالد بٹ آگئے، جنہوں نے ایک دن ادریس بھائی کی فرمائش پر لطیفہ سنایا تو وہ میرے گرویدہ ہو گئے۔ پھر ڈاکٹر ذوالفقار بھی ٹرانسفر ہو کر یہاں آ گئے، تو ہماری یہ محفل زور و شور سے سجنے لگی۔
یہ بھی پڑھیں: گرینڈ ہیلتھ الائنس پنجاب میں 2تنظیموں کی شمولیت
محفل کی رونق
ہم تاش کھیلتے اور اس دوران ڈاکٹر خالد بٹ ڈیوٹی دیتے تھے۔ ڈاکٹر ذوالفقار اور راقم پارٹنر ہوتے تھے جبکہ ڈاکٹر شفقت اور ڈاکٹر سہیل۔ رنگ کی خوب بازی سجتی۔ اکثر ڈاکٹر شفقت اور ڈاکٹر سہیل ہارتے، اور ڈاکٹر سہیل کی تلملاہٹ دیکھنے والی ہوتی۔
یہ بھی پڑھیں: دہشت گردی میں ملوث دو سعودی شہریوں کو سزائے موت دے دی گئی
ڈاکٹر رولا
ڈاکٹر سہیل کو بہت شور مچانے اور بولنے کی عادت کی وجہ سے میں نے اُسے "ڈاکٹر رولا" کا نام دیا اور شروع میں اس نے اس نام پر اعتراض کیا لیکن دیوانے بھلا کہاں اس کی بات سنتے۔ وہ دوستوں میں اسی نام سے مشہور ہو گیا۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
				







