یہ کم بخت تاش ایسا کھیل ہے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا، بنیادی مرکز صحت ایک طرح کا کلب ہی بن گیا تھا، پھر ٹیم بن گئی اس طرح کرکٹ کا ٹھرک پورا ہو جاتا

مصنف: شہزاد احمد حمید
قسط: 183
ڈاکٹر ذوالفقار کے آنے سے تاش کے ساتھ کرکٹ بھی کھیلی جانے لگی تھی۔ وہ بڑی اچھی کرکٹ کھیلتے تھے۔ پہلا گھنٹہ کرکٹ اور اس کے بعد تاش ہوتی۔ بنیادی مرکز صحت ایک طرح کا کلب ہی بن گیا تھا۔ فرق یہ تھا کہ یہ دن میں صرف 3 گھنٹے کے لئے کھلتا اور چرغہ کے لنچ (جو تاش کی ہاری جوڑی منگواتی تھی) کے ساتھ ہی اگلے دن تک بند ہو جاتا تھا۔
ڈاکٹر سہیل کا تبادلہ
2سال بعد ڈاکٹر سہیل کا تبادلہ میو ہسپتال لاہور ہو گیا اور وہاں سے وہ سعودی عرب چلا گیا۔ ایک بار سعودی عرب جانے سے پہلے اور ایک بار سعودی عرب سے واپسی پر اُس سے میو ہسپتال میں ملاقات ہوئی تھی۔ سعودیہ سے آنے کے بعد وہ باریش ہو چکا تھا۔ بڑے تپاک سے ملا۔ مدت ہوئی اُس سے دوبارہ ملاقات نہیں ہوئی۔ جہاں بھی ہے اللہ اُسے خوش رکھے۔ آمین۔
کلب کی رونق میں کمی
اس کے جانے کے بعد کلب کی رونق میں کمی آ گئی پھر ڈاکٹر ذوالفقار کا بھی تبادلہ ہو ا تو کلب ختم ہی ہو گیا۔ ڈاکٹر ذوالفقار سے آخری بار ملاقات 2017ء میں لاہور میں ہوئی جب وہ ای ڈی او ہیلتھ لاہور تھا۔ اس بے تکلف ملاقات میں ہم دیر تک لالہ موسیٰ کی یادیں تازہ کرتے کافی کا مزا لیتے رہے۔
ڈاکٹر خالد بٹ سے ملاقات
ڈاکٹر خالد بٹ سے آخری بار ملاقات 2016ء میں سیالکوٹ ہوئی جہاں وہ ڈسٹرکٹ ہسپتال کا ایم ایس تھا جبکہ میں ڈائریکٹر بلدیات گوجرانوالہ ڈویثرن تھا۔ یہ سب بھی میری طرح ریٹائر ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر خالد منہاس لالہ موسیٰ میں پرائیوٹ پریکٹس کرتے ہیں۔ ان سے اکثر لالہ موسیٰ اکیڈمی میں ملاقات ہو جاتی تھی جہاں وہ اپنی بیٹی کے ساتھ روز رات کو سیر کے لئے آتے تھے۔ نفیس انسان ہیں۔
ڈاکٹر شفقت سے رابطہ
ڈاکٹر شفقت سے اب بھی رابطہ ہے۔ وہ عرصہ تک میرے بچوں عمر احمد کے ڈاکٹر رہے اور اب میری پوتی امیرہ کے لیے دوا تجویز کر دیتے ہیں۔ اللہ ان سب کا نگہبان ہو۔ آمین
مشتاق کرکٹ کا کھلاڑی
دن میں وقت تو اچھا گزر جاتا تھا کچھ دفتر کی مصروفیت اور کچھ کلب کی لیکن شام بڑی لمبی ہوتی تھی۔ نہ کہیں آنے کی جگہ اور نہ ہی کوئی تفریحی مقام۔ لالہ موسیٰ اس لحاظ سے بدقست شہر ہے کہ یہاں نہ کوئی اچھا پارک ہے نہ ہی کوئی کھیل کا میدان، نہ ہی کوئی اچھا ریسٹورنٹ اور نہ ہی کوئی کلب۔
کرکٹ کا آغاز
میرے دفتر کے ارد گرد پائلٹ ایریا کی بڑی سرکاری زمین تھی۔ سوچا کیوں نہ یہاں کرکٹ شروع کی جائے۔ میں نے لالہ نذر سے بات کی تو وہ کہنے لگے؛ "سر! مشتاق سے بات کریں وہ بھی کرکٹ کھیلتا ہے۔" مشتاق سے اب کچھ دوستی بھی ہو گئی تھی جو بعد میں گہری یاری میں بدل گئی۔
محلے کے لڑکے اور میچز
اس سے بات کی تو ایک روز وہ محلے کے چند طالب علموں کو لے آ یا۔ ان میں کینٹ بوائز کالج کا اسلامک سٹیڈیز کا لیکچرار پروفیسر مرتضیٰ بھی تھا۔ دھیمے مزاج کا سادہ، نفیس، باریش اور پر خلوص انسان۔ الٹے ہاتھ سے تیز باؤلنگ کراتا تھا اکثر میری بیٹنگ اس کے لئے سنگین ہوتی تھی۔ میرے ساتھ دو بار "نارتھرن ایریاز" بھی گیا۔
پہلے میچ کی یادیں
ٹینس بال سے کرکٹ کھیلنی شروع کی۔ اب شام کی ایکٹیویٹی کا کچھ بندوبست ہو گیا۔ مشتاق نے محلے کے لڑکے اکٹھے کرکے ٹیم ہی بنا لی اور ہفتے میں ایک آدھ بار شام کو شہر کی ایک ٹیم جو "آفتاب کی ٹیم" کہلاتی تھی میچ بھی ہو جاتا تھا جو اکثر ہم ہی ہارتے تھے لیکن خوب ایکسرسائز رہتی، کرکٹ کا ٹھرک بھی پورا ہو جاتا اور وقت بھی اچھا گزرتا تھا۔
اجتماعی محفلیں
مشتاق کے چھوٹے بھائی افتخار اور ذوالفقار بھی شریف اور ہنس مکھ تھے ان سے بھی دوستی ہو گئی۔ مغرب کے بعد مشتاق کے گھر چلا جاتا، گپ شپ ہوتی، ادریس بھائی بھی آ جاتے، تاش (رنگ) کھیلتے۔ یہ کم بخت تاش ایسا کھیل ہے کہ وقت کا پتہ ہی نہیں چلتا۔ کئی بار جب مشتاق کے گھر سے نکلتا تو فجر کی اذان میں زیادہ دیر باقی نہ ہوتی تھی۔
آفرین بھابی آسیہ
طارق نامی بچہ بھی آ جاتا۔ خوب محفل جمی رہتی۔ کئی بار کھانا بھی یہیں کھاتا۔ آفرین بھابی آسیہ پر کہ وہ کبھی بھی اس تاش کی محفل کا برا نہ مناتی تھیں۔ بڑی خوشدلی سے ہماری خاطر تواضع کرتی۔ وہ نیک بخت خاتون بڑی مہمان نواز اور بہنوں کی طرح تھیں۔ آج بھی یہ رشتہ اتنا ہی گرم جوش ہے۔
نوٹ
یہ کتاب "بک ہوم" نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔