فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

سپرئم کورٹ میں چیلنج
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: کراچی: شادی ہال پر چھاپہ مارنے والی ایف بی آر کی ٹیم کو ہال کے عملے نے یرغمال بنالیا
نظر ثانی درخواست
روز نامہ امت کے مطابق سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کردی۔ نظر ثانی درخواست میں وفاق اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: ٹیکس تنازعہ، سری لنکن بورڈ اور کرکٹرز میں معاملات طے پا گئے
آرمی ایکٹ کی شقیں
جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں مو قف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی اور 59 فور کو کالعدم قرار دیا تھا۔ 5 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ 9 اور 10 مئی حملوں کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعہ! بھارت پاکستان پر حملے کیلئے کیس بنا رہا ہے: نیویارک ٹائمز کا دعویٰ
آئینی بینچ کا فیصلہ
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 5 رکنی بینچ کا فیصلہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا تھا، 7 مئی کو آئینی بینچ نے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پی ایس ایل 10 کے بقیہ میچز کا فیصلہ آئندہ دو روز میں متوقع
غلط انحصار کا الزام
جواد ایس خواجہ نے مو قف اختیار کیا ہے کہ نظر ثانی دائر کرنے کا اختیار عدالتی فیصلے میں غلطیوں کو درست کرنے کیلئے ہوتا ہے، آئینی بینچ نے ایف بی علی کیس پر غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: جناح ہاوس جلاو گھیراو کیس میں اہم پیشرفت، مزید 5 ملزمان بیگناہ قرار
فیئر ٹرائل کا حق
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس پر بھی غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا، آئینی بینچ نے شاہدہ ظہیر عباسی کیس پر بھی غلط انحصار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: نواز شریف آئی ٹی سٹی میں عالمی اداروں اور بین الاقوامی یونی یونیورسٹیوں کے کیمپس قائم کیے جائیں گے: وزیر اعلیٰ پنجاب
عدالت کی ذمہ داری
نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے فیصلہ دیا کہ ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کا حق محفوظ رہتا ہے، ساتھ ہی آئینی بینچ نے پارلیمنٹ کو اپیل کے حق کیلئے قانون سازی کا حکم بھی دیا۔ آئینی بینچ کی آبزرویشنز اور احکامات آپس میں متضاد ہیں، آئینی بینچ نے آزادانہ اپیل کا حق فراہم کرنے کا حکم دے کر تسلیم کیا کہ فوجی عدالتیں آزاد نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام حملے کے بعد بھارتی کرکٹ بورڈ کا رد عمل سامنے آگیا، پاک بھارت کرکٹ کے حوالے سے بڑا فیصلہ سنا دیا۔
آخری موقف
سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست میں کہا کہ آئینی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے بتائے گئے 9 اور 10 مئی کے واقعات کا ذکر کیا، ان واقعات کے مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، آئینی بینچ اپنے فیصلے میں اس قسم کے متعصبانہ ریمارکس شامل نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: ہمیں قیادت سے نہیں ملنے دیا جارہا، بیرسٹر گوہر، تحریک انصاف کا قومی اسمبلی اجلاس کا بائیکاٹ
سپریم کورٹ کا اصول
جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ 7 رکنی آئینی بینچ میں شامل دو ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، مرکزی کیس میں چار ججز جبکہ اپیل میں دو ججز نے قرار دیا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: سیلاب متاثرہ علاقوں میں ہیضہ، ڈینگی، ملیریا، سانس اور جلد کی بیماریاں تیزی سے پھیلنے لگیں، محکمہ صحت کی رپورٹ جاری
دائرہ اختیار کے تجاوزات
نظرثانی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم پہلے ہی اداروں کی جانب سے اپنے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے پر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، آئینی بینچ کے فیصلے سے یہ ثاثر ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو کا جج بننا قبول کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور کے 3200 صحافیوں کو پلاٹس دینے میں بڑی پیش رفت
استدعا
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر ملٹری ٹرائل آزاد اور آئینی ہے تو پھر پورا سول جوڈیشل سسٹم ہی ایگزیکٹو کے کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔ جواد ایس خواجہ نے استدعا کی کہ نظر ثانی درخواست کو منظور کرکے آئینی بینچ کے 7 مئی 2025 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ بحال کیا جائے۔
حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں
خیال رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کر دیا تھا۔انٹرا کورٹ اپیلیں 2-5 کی اکثریت سے منظور کی گئیں جبکہ جسٹس نعیم الدین افغان اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔