فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

سپرئم کورٹ میں چیلنج
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: ٹرمپ کی نئی ٹیرف پالیسی سے ایپل آئی فون کی قیمتوں میں 43 فیصد تک اضافے کا خدشہ
نظر ثانی درخواست
روز نامہ امت کے مطابق سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کردی۔ نظر ثانی درخواست میں وفاق اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: خیبر پختونخوا میں گورنر راج کی خبروں پر علی امین گنڈا پور کا رد عمل
آرمی ایکٹ کی شقیں
جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں مو قف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی اور 59 فور کو کالعدم قرار دیا تھا۔ 5 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ 9 اور 10 مئی حملوں کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: خواتین کو ہر میدان میں آگے بڑھتے دیکھنے کا قائل ہوں: وزیر تعلیم رانا سکندر حیات
آئینی بینچ کا فیصلہ
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 5 رکنی بینچ کا فیصلہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا تھا، 7 مئی کو آئینی بینچ نے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: ماہ نور علی نے یو ایس جونیئر اوپن اسکواش چیمپئن شپ جیت لی
غلط انحصار کا الزام
جواد ایس خواجہ نے مو قف اختیار کیا ہے کہ نظر ثانی دائر کرنے کا اختیار عدالتی فیصلے میں غلطیوں کو درست کرنے کیلئے ہوتا ہے، آئینی بینچ نے ایف بی علی کیس پر غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: پروازوں کو بم سے اُڑانے کی دھمکی، بھارتی پولیس کو تگنی کا ناچ نچانے والا گرفتار
فیئر ٹرائل کا حق
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس پر بھی غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا، آئینی بینچ نے شاہدہ ظہیر عباسی کیس پر بھی غلط انحصار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پنجاب میں گزشتہ سالوں کی نسبت رواں سال زیادہ گرمی پڑنے کی پیشگوئی
عدالت کی ذمہ داری
نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے فیصلہ دیا کہ ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کا حق محفوظ رہتا ہے، ساتھ ہی آئینی بینچ نے پارلیمنٹ کو اپیل کے حق کیلئے قانون سازی کا حکم بھی دیا۔ آئینی بینچ کی آبزرویشنز اور احکامات آپس میں متضاد ہیں، آئینی بینچ نے آزادانہ اپیل کا حق فراہم کرنے کا حکم دے کر تسلیم کیا کہ فوجی عدالتیں آزاد نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: اعجاز چودھری پر سازش کا الزام ابھی ثابت نہیں ہوا، سپریم کورٹ نے ضمانت منظوری کا تحریری حکم نامہ جاری کردیا
آخری موقف
سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست میں کہا کہ آئینی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے بتائے گئے 9 اور 10 مئی کے واقعات کا ذکر کیا، ان واقعات کے مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، آئینی بینچ اپنے فیصلے میں اس قسم کے متعصبانہ ریمارکس شامل نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: ایران نیوکلیئر پابندی کی حد عبور کر سکتا ہے: امریکی دعویٰ
سپریم کورٹ کا اصول
جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ 7 رکنی آئینی بینچ میں شامل دو ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، مرکزی کیس میں چار ججز جبکہ اپیل میں دو ججز نے قرار دیا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: گوجرانوالہ میں خاتون نے شوہر اور باپ کے ساتھ مل کر آشنا کو قتل کردیا
دائرہ اختیار کے تجاوزات
نظرثانی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم پہلے ہی اداروں کی جانب سے اپنے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے پر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، آئینی بینچ کے فیصلے سے یہ ثاثر ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو کا جج بننا قبول کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: اختر مینگل کا مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کے خلاف عدالت جانے کا اعلان
استدعا
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر ملٹری ٹرائل آزاد اور آئینی ہے تو پھر پورا سول جوڈیشل سسٹم ہی ایگزیکٹو کے کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔ جواد ایس خواجہ نے استدعا کی کہ نظر ثانی درخواست کو منظور کرکے آئینی بینچ کے 7 مئی 2025 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ بحال کیا جائے۔
حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں
خیال رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کر دیا تھا۔انٹرا کورٹ اپیلیں 2-5 کی اکثریت سے منظور کی گئیں جبکہ جسٹس نعیم الدین افغان اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔