فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج

سپرئم کورٹ میں چیلنج
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن )فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت دینے کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا گیا۔
یہ بھی پڑھیں: غزہ میں جاری صہیونی سفاکیت، امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے اسلامی ممالک کے سربراہان کو خط بھیج دیا
نظر ثانی درخواست
روز نامہ امت کے مطابق سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ٹرائل پر آئینی بینچ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں نظر ثانی درخواست دائر کردی۔ نظر ثانی درخواست میں وفاق اور چاروں صوبوں کو فریق بنایا گیا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: بطور خاتون محترمہ فاطمہ جناح کو رول ماڈل سمجھتی ہوں: وزیراعلیٰ مریم نواز
آرمی ایکٹ کی شقیں
جواد ایس خواجہ نے سپریم کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں مو قف اختیار کیا ہے کہ سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ نے آرمی ایکٹ کی شق 2 ون ڈی اور 59 فور کو کالعدم قرار دیا تھا۔ 5 رکنی بینچ نے فیصلہ دیا کہ 9 اور 10 مئی حملوں کے ملزمان کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: پہلگام واقعہ پر بی جے پی رہنما بوکھلاہٹ کا شکار، عام اینٹینا کو خفیہ ڈیوائس سمجھ بیٹھے، کشمیریوں پر الزام بھی تھوپ دیا
آئینی بینچ کا فیصلہ
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ 5 رکنی بینچ کا فیصلہ جسٹس منیب اختر اور جسٹس عائشہ ملک نے تحریر کیا تھا، 7 مئی کو آئینی بینچ نے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی ڈرون حملے میں شہید ہونیوالے 8 بہنوں کے اکلوتے بھائی کی دردناک کہانی
غلط انحصار کا الزام
جواد ایس خواجہ نے مو قف اختیار کیا ہے کہ نظر ثانی دائر کرنے کا اختیار عدالتی فیصلے میں غلطیوں کو درست کرنے کیلئے ہوتا ہے، آئینی بینچ نے ایف بی علی کیس پر غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر اعظم لندن پہنچ گئے
فیئر ٹرائل کا حق
درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشن کیس پر بھی غلط انحصار کرتے ہوئے فیصلہ دیا، آئینی بینچ نے شاہدہ ظہیر عباسی کیس پر بھی غلط انحصار کیا۔
یہ بھی پڑھیں: پشاور ہائی کورٹ نے فیصل جاوید کو ایک ماہ کی حفاظتی ضمانت دے دی
عدالت کی ذمہ داری
نظرثانی درخواست میں کہا گیا ہے کہ آئینی بینچ نے فیصلہ دیا کہ ملٹری ٹرائل میں فیئر ٹرائل کا حق محفوظ رہتا ہے، ساتھ ہی آئینی بینچ نے پارلیمنٹ کو اپیل کے حق کیلئے قانون سازی کا حکم بھی دیا۔ آئینی بینچ کی آبزرویشنز اور احکامات آپس میں متضاد ہیں، آئینی بینچ نے آزادانہ اپیل کا حق فراہم کرنے کا حکم دے کر تسلیم کیا کہ فوجی عدالتیں آزاد نہیں۔
یہ بھی پڑھیں: موسمیاتی تبدیلی اتھارٹی کے قیام سے متعلق کیس ؛26ویں آئینی ترمیم سے متعلق جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس عائشہ ملک کے دلچسپ ریمارکس
آخری موقف
سابق چیف جسٹس نے نظرثانی درخواست میں کہا کہ آئینی بینچ نے اپنے مختصر فیصلے میں اٹارنی جنرل کی جانب سے بتائے گئے 9 اور 10 مئی کے واقعات کا ذکر کیا، ان واقعات کے مقدمات انسداد دہشت گردی عدالتوں میں زیر سماعت ہیں، آئینی بینچ اپنے فیصلے میں اس قسم کے متعصبانہ ریمارکس شامل نہیں کرسکتا۔
یہ بھی پڑھیں: کوئی سازش پاکستان کو تباہی کی طرف نہیں لے جا سکتی: رانا مشہود
سپریم کورٹ کا اصول
جواد ایس خواجہ نے کہا ہے کہ 7 رکنی آئینی بینچ میں شامل دو ججز نے اکثریتی فیصلے سے اختلاف کیا، مرکزی کیس میں چار ججز جبکہ اپیل میں دو ججز نے قرار دیا کہ سویلینز کا ملٹری ٹرائل نہیں ہو سکتا۔
یہ بھی پڑھیں: سکھر میں مگرمچھ کا نہر کنارے کپڑے دھونے والی خاتون پر خوفناک حملہ
دائرہ اختیار کے تجاوزات
نظرثانی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ ہم پہلے ہی اداروں کی جانب سے اپنے آئینی دائرہ اختیار سے تجاوز کرنے پر بہت نقصان اٹھا چکے ہیں، آئینی بینچ کے فیصلے سے یہ ثاثر ہمیشہ کے لئے قائم ہو جائے گا کہ سپریم کورٹ نے ایگزیکٹو کا جج بننا قبول کرلیا۔
یہ بھی پڑھیں: یوکرین جنگ میں سینکڑوں فوجی مارے گئے، لیکن شمالی کوریا کو اس کا کیا فائدہ ہوا؟ حیران کن انکشاف
استدعا
درخواست میں کہا گیا ہے کہ اگر ملٹری ٹرائل آزاد اور آئینی ہے تو پھر پورا سول جوڈیشل سسٹم ہی ایگزیکٹو کے کنٹرول میں دیا جا سکتا ہے۔ جواد ایس خواجہ نے استدعا کی کہ نظر ثانی درخواست کو منظور کرکے آئینی بینچ کے 7 مئی 2025 کے فیصلے کو کالعدم قرار دیا جائے اور سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ بحال کیا جائے۔
حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں
خیال رہے کہ 7 مئی کو سپریم کورٹ کے 7 رکنی آئینی بینچ نے فوجی عدالتوں میں سویلینز کے ملٹری ٹرائل کو درست قرار دیتے ہوئے حکومت کی انٹرا کورٹ اپیلیں منظور کرتے ہوئے آرمی ایکٹ کو اصل شکل میں بحال کر دیا تھا۔انٹرا کورٹ اپیلیں 2-5 کی اکثریت سے منظور کی گئیں جبکہ جسٹس نعیم الدین افغان اور جسٹس جمال مندوخیل نے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔