ادھورا خواب
رات کی خاموشی میں ایک ستارہ
رات کی خاموشی میں ایک ستارہ ٹمٹما رہا تھا وہ ستارہ جو ابھی پوری طرح چمکنے بھی نہ پایا تھا کہ اندھیروں نے اسے نگل لیا۔ ثناء یوسف، ایک معصوم خواب کی مانند تھی، وہ جس کی مسکراہٹ میں بہار کی رونق تھی، جس کی آنکھوں میں ستاروں کی چمک تھی اور شہرت کی منزلوں پر رواں دواں تھی۔
یہ بھی پڑھیں: اب تو جج تقرری کا اختیار جوڈیشل کمیشن کا ہے، جسٹس محمد علی مظہر
شہرت کی دنیا کے سائے
مگر شہرت کی دنیا میں روشنی ہمیشہ اندھیروں کو دعوت دیتی ہے۔ حسد، نفرت، اور جنون یہ سب اس کے تعاقب میں تھے مگر وہ ان سب سے بے نیاز اپنی دنیا میں مگن تھی۔
یہ بھی پڑھیں: گنڈاپورتیری 90 دن کی بڑھک ختم ہونے والی ہے، ہم تجھ سے استعفیٰ لے کر دکھائیں گے، پی ٹی آئی ایکٹویسٹ الہ دین کا ویڈیو پیغام
ایک ویڈیو، ایک سایہ
29 مئی کی شام تھی، جب اس نے اپنی سالگرہ پر ایک ویڈیو اپلوڈ کی، لاکھوں لوگوں نے اسے دیکھا، پسند کیا، محبت بھری دعائیں دیں مگر کہیں دور ایک سایہ تھا، جو اس کی خوشی سے جل رہا تھا۔ وہ سایہ جو بار بار اس کے قریب آنے کی کوشش کر رہا تھا، مگر وہ اسے نظر انداز کر رہی تھی.
یہ بھی پڑھیں: پنجاب ویمن پروٹیکشن اتھارٹی اور یو این ایف پی اے کا اجلاس، درپیش چیلنجز پر تفصیلی گفتگو
کاٹنے والا لمحہ
2 جون کی رات، وہ اپنے گھر میں شاید اپنی اگلی ویڈیو کے بارے میں سوچ رہی تھی اچانک دروازہ کھلا اور ایک شخص اندر آیا اس کی آنکھوں میں جنون تھا، اس کے ہاتھ میں موت تھی.
"تم نے مجھے مسترد کیا؟" اس نے سرگوشی کی۔
ثناء نے خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹنے کی کوشش کی، مگر وقت نے اسے مہلت نہ دی۔ ایک لمحہ، ایک گولی، ایک چیخ اور سب ختم ہو گیا۔ وہ ستارہ جو چمکنے والا تھا، بجھ گیا۔ وہ خواب جو پورا ہونے والا تھا، ٹوٹ گیا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکہ: مزید 36 ممالک کے شہریوں کے داخلے پر پابندی پر غور، کون سے ممالک شامل؟
سوشل میڈیا کا ردعمل
میں ٹک ٹاک زیادہ فالو نہیں کرتا اور نا ہی ثناء کو جانتا تھا لیکن جب اس کے قتل کی المناک خبر پھیلی، تو دل دہل گیا۔ سوشل میڈیا پر ایک طوفان تھا، انسٹاگرام پر سوگ، ٹک ٹاک پر خاموشی اور ٹویٹر اور فیس بک پر بے شمار دعائیں لئے لوگ اپنے پیغامات اور اپنی یادیں شیئر کر رہے تھے، اس کی ویڈیوز دوبارہ دیکھ رہے تھے اور اس کی تصویر اور ویڈیو کے ساتھ آنسو بہا رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: محکمہ موسمیات نے سموگ سے متعلق پیش گوئی کردی
خوابوں کی ٹوٹ پھوٹ
یقینا” وہ دن دور نہیں تھا جب وہ سوشل میڈیا کی حدوں سے نکل کر بڑے پردے پر جگمگانے والی تھی۔ اپنے خوابوں میں وہ بڑے برانڈز کی ایمبیسڈر بننے یا اپنی آرٹ اکیڈمی کھولنے، مستحق بچوں کی مدد کرنے، اور اپنی زندگی کو ایک مثال بنانے کی امید رکھتی تھی۔ شاید وہ سوچتی تھی کہ یہ دنیا، جو اسے چاہتی ہے، ہمیشہ اس کے ساتھ رہے گی۔ مگر کئی خواب ہمیشہ پورے نہیں ہوتے، کچھ خواب وقت کے ہاتھوں شکستہ ہو جاتے ہیں اور کچھ حسد کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: عمران خان کے قول و فعل میں تضاد، انہوں نے سیاست موروثیت کے خلاف شروع کی، اب فیملی کو آگے کردیا: فخر درانی
نصیحت اور برداشت
یہ کہانی صرف ثناء یوسف کی نہیں، بلکہ ہر اس خواب کی ہے جو حسد اور نفرت کی نذر ہو جاتا ہے۔ یہ ان تمام معصوم چہروں کی ہے جو اندھیروں میں گم ہو جاتے ہیں مگر ہمیں رکنا نہیں چاہیے، ہمیں اس دنیا میں برداشت پیدا کرنی ہوگی، دلوں میں وسعت لانی ہوگی، اختلافات کو دشمنی میں بدلنے سے روکنا ہوگا، معاشرہ تب ہی ترقی کرے گا جب ہر فرد دوسرے کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھے اور ہر روشنی کو بجھنے سے پہلے تھام لے۔
اختتامی کلمات
قارئینِ کرام، معاشرتی برداشت ہی وہ روشنی ہے جو اندھیرے کو مات دے سکتی ہے، آئیے، برداشت کو اپنا شعار بنائیں تاکہ کوئی اور خواب ادھورا نہ رہ جائے۔
نوٹ: یہ مصنف کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ’[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








