ہندوستان میں جنگ آزادی کا آغاز ہو گیا: انگریز سرکار پریشان تھی، فوج کی نقل و حرکت کے نظام کو مضبوط رکھنا چاہتی تھی اور لاہور مرکزی مقام بننے جا رہا تھا۔
مصنف
محمدسعیدجاوید
یہ بھی پڑھیں: حمیرا اصغر کے کیمرے سے سفید پاؤڈر ملا ہے جس تجزیے کے لیے لیبارٹری بھجوا دیا ہے، پولیس
قسط: 147
یہ بھی پڑھیں: کراچی اور لاہور کے بیچ گاڑی چل نکلی تھی جو تین، چار دن میں منزل مقصود پر پہنچ جاتی تھی، یہ ڈیڑھ مہینے کے دریائی سفر سے تو بہت بہتر تھا۔
پنجاب کا علاقہ
پنجاب کا یہ سارا علاقہ میدانی تھا اس لیے یہاں بڑی تیزی اور آسانی سے لائن بچھتی چلی گئی۔ یہ ہی دن تھے جب ہندوستان میں جنگ آزادی کا آغاز ہو گیا تھا جس کی وجہ سے انگریز سرکار بہت زیادہ پریشان تھی اور جلد از جلد بڑے شہروں میں فوج کی نقل و حرکت کے نظام کو قائم اور مضبوط رکھنا چاہتی تھی۔ لاہور اس مقصد کے لیے مستقبل کا مرکزی مقام بننے جا رہا تھا، جہاں سے شمالی، جنوبی اور مغربی علاقوں میں با آسانی رابطہ ہوسکتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ویڈیو: بیرون ملک رہنے والے مردوں کی ازدواجی زندگی تباہ ہوسکتی ہے، اپنی فیملی کو کیسے بچایا جائے؟
لاہور میں ریل کا آغاز
معمول کے مطابق ریل گاڑی کی لائنیں بچھانے کے ساتھ ساتھ ہی ریلوے اسٹیشنوں کی عمارتیں بھی تعمیر ہونا شروع ہو گئی تھیں۔ جس میں سب سے ترجیحی تعمیر تو مرکزی ریلوے اسٹیشن یعنی لاہور کی تھی، اسے مستقبل میں نہ صرف ایک بہت بڑا جنکشن بنایا جانا مقصود تھا بلکہ یہ پنجاب ریلوے کا ہیڈ کوارٹرز بھی بننے جا رہا تھا جہاں سے اس علاقے کے سارے ریلوے نظام کو کنٹرول کیا جانا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: بھارتی نیوی کی آبدوز مچھیروں کی کشتی سے ٹکرا گئی، 2 ماہی گیر لاپتہ
بغاوت کا آغاز
ابھی یہ ریلوے اسٹیشن زیر تعمیر ہی تھا کہ وسطی ہندوستان کے شہر میرٹھ سے حکومت کے خلاف بغاوت کا آغاز ہوا اور یہ شورش آہستہ آہستہ دوسرے شہروں میں بھی پھیلتی چلی گئی۔ خیر اس سرکشی کو تو 1859ء میں کچل دیا گیا تھا مگر قابض انگریز اپنی حکومت کے حوالے سے اب بہت خوف زدہ اور فکرمند ہو گئے تھے۔ لہٰذا انھوں نے ریلوے کے منصوبوں پر جاری کام کو مزید تیز کر دیا اور نئے نئے شہروں میں پٹریاں بچھانے کا کام بھی شروع کروا دیا۔
یہ بھی پڑھیں: دو سال میں 10 لاکھ نوجوانوں کو آئی ٹی کورسز کروائیں گے، امیر جماعت اسلامی کا اعلان
1857ء کی جنگ آزادی
1857ء کی اس جنگ آزادی کے فوراً بعد انگریز حکومت کو اس بات کا خدشہ ہو چلا تھا کہ لاہور جیسے بڑے شہر میں بھی اگر وسطی ہندوستان کے دوسرے شہروں کی دیکھا دیکھی کوئی شورش اٹھ کھڑی ہوئی تو اسے سنبھالنا بے حد مشکل ہو جائے گا۔ لہٰذا اسی خدشے کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے ریلوے کے حوالے سے دو تین اہم فیصلے کیے۔
یہ بھی پڑھیں: ایسا معاشرہ بنانا چاہتے ہیں جہاں ہر شخص ذہنی سکون سے بھرپور زندگی گزار سکے: وزیر اعلیٰ کا عالمی یومِ ذہنی صحت پر پیغام
لاہور کا مرکزی ریلوے اسٹیشن
طے پایا کہ لاہور کو پنجاب کے علاقے کا مرکزی ریلوے اسٹیشن بنا کر یہاں سے ایک طرف تو لائن کو کراچی تک پہنچایا جائے گا تو دوسری طرف اسی لائن کو شمال میں پشاور تک وسعت دے کر افغانستان کی سرحدوں کے اندر ان علاقوں تک لے جایا جائے گا جہاں انگریز حکومت کی عمل داری تھی۔ یہ اس لیے بھی انتہائی ضروری تھا کہ افغانستان کی طرف سے انھیں ہر وقت بغاوت اور حملے کا خطرہ لگا رہتا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: لڑکی نے بوائے فرینڈ سے مشکوک میسجز بارے پوچھا تو آگے سے ایسا خوفناک رد عمل ملا کہ معذور ہو کر رہ گئی
تعمیراتی حکمت عملی
اس کے علاوہ وہ یہ بھی چاہتے تھے کہ کراچی کی بندرگاہ سے درآمدی مال کو وسطی ہندوستان لانے یا باہر لے جانے کے لیے جتنا جلد بھی ممکن ہو لاہور کو امرتسر سے منسلک کر دیا جائے، جہاں سے وہ ہندوستان کے دارالخلافہ دہلی کو جانے والی مرکزی لائن میں ضم ہو جائے اور یوں اس کا رابطہ ہندوستان کے تمام بڑے شہروں سے ہو جائے۔ حکومت ابھی تازہ تازہ جنگ آزادی کو کچل کر فارغ ہوئی تھی اور وہ بجا طور پر ایک اور ممکنہ سرکشی کی وجہ سے کافی محتاط تھی۔
یہ بھی پڑھیں: سلمان نے اپنا ”مین آف میچ کا ایوارڈ” صائم کو دیدیا
لاہور ریلوے اسٹیشن کی تعمیر
لاہور میں ان کو کسی بھی وقت بغاوت کے بھڑکنے کا اندیشہ تھا، اس لیے لاہور ریلوے اسٹیشن کو بھی انھوں نے ترجیحی بنیادوں پر نہ صرف مکمل کیا بلکہ اس کی انتہائی مضبوط عمارت کو اس انداز میں تعمیر کیا کہ بوقت ضرورت اس کو ایک مضبوط قلعے کے شکل دی جا سکے۔
یہ بھی پڑھیں: میں کسی تحریک یا ٹکراؤ کی سیاست کا حامی نہیں ہوں، جاوید ہاشمی
بغاوت کا خوف
اس کے لیے عمارت کی چھتوں اور قلعہ نما میناروں پر باقاعدہ توپوں اور بندوقچیوں کے لیے مورچے بنائے گئے تھے تاکہ ہنگامی حالت میں اسٹیشن میں قلعہ بندی کر کے باغیوں سے دوبدو مقابلہ کیا جا سکے۔ ویسے بھی اسٹیشن کی یہ عمارت اس وقت کے لاہور شہر کی حدود سے کافی باہر نکل کر بنی تھی، جس کے چاروں طرف آبادی نہ ہونے کے وجہ سے انگریزوں کے جنگجو دستے اور توپچی دور دور تک نظر رکھ سکتے تھے۔
تعمیراتی ترقی
بغاوت تو خیر نہ ہوئی لیکن اس کے خوف سے ہندوستان میں ایک جامع حکمت عملی کے تحت جگہ جگہ ریلوے کے منصوبوں پر تیزی سے کام ہوتا گیا۔ مختلف سمتوں میں مرکزی اور برانچ لائنیں بچھتی چلی جا رہی تھیں، اسٹیشن تعمیر ہو رہے تھے اور دریاؤں، نہروں اور گزر گاہوں پر پُل بنائے جا رہے تھے۔ یہ تعمیراتی کام جو 1850ء میں شروع ہوئے تھے، 1870ء کی دہائی میں پورے عروج پر پہنچ گئے تھے۔
(جاری ہے)
نوٹ: یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں) ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔








