چوبرجی کے مقام پر انجن کے باقاعدہ استقبال کی محفل سجائی گئی، جشن کا اہتمام کیا گیا، شہر کے سب انگریز، دیسی افسراور معززین شہر تقریب میں پہنچ گئے

مصنف کا تعارف
مصنف: محمد سعید جاوید
قسط: 149
یہ بھی پڑھیں: بنگلہ دیش پریمیئر لیگ کیلئے 10 پاکستانی کرکٹرز کو این او سی جاری
پہلا اسٹیم انجن لاہور میں
اور وہ آگیا! لاہور کا پہلا انجن۔四وں طرف سے زمینی راستوں کو بند پا کر، اس مسئلے کا حل کچھ یوں نکالا گیا کہ لاہور اسٹیشن پر پہنچنے والے اس علاقے کے لیے منگوائے گئے پہلے اسٹیم انجن کو کراچی کی بندر گاہ پر اْتار کر اسے مال گاڑی کے ذریعے کوٹری تک لایا گیا۔ جہاں سے اسے انڈس فلوٹیلا اسٹیم کمپنی کے بحری سٹیمر پر لاد دیا گیا۔ سٹیمر نے دریائے سندھ میں اپنا روایتی سفر جاری رکھتے جنوبی پنجاب کے مقام کوٹ مٹھن کے قریب پہنچنا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: آئی ایم ایف نے بھارتی مطالبہ مسترد کر دیا، پاکستان کو 2.3 ارب ڈالر پیکیج ملنے کا امکان
سفر کی تفصیلات
یہاں سے دریائے سندھ کا راستہ چھوڑ کر سٹیمر کو پنجنند کی طرف مڑ جانا تھا اور کچھ آگے دریائے راوی میں داخل ہو کر اپنا سفر مکمل کرکے لاہور شہر کی بندر گاہ پر پہنچنا تھا۔ یہ ان کا جانا پہچانا راستہ تھا اور ان کے لیے کچھ بھی نیا نہ تھا، سوائے اس کے کہ اب کی بار ان کے اسٹیمر میں معمول کے مسافروں اور سامان کے ہمراہ ایک نیا اور بھاری بھر کم لش لش کرتا ہوا بھاپ کا سیاہ انجن بھی یہ سفر کر رہا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: امریکی انتخابات نے ثابت کردیا کہ میڈیا کو مینج کرکے کسی سیاستدان کی مقبولیت کم نہیں کی جا سکتی، حامد میر کا تجزیہ
سفر کی دشواری
یہ ایک بہت ہی طویل اور تھکا دینے والا سفر تھا۔ ایک اندازے کے مطابق اس جناتی مشین کو کراچی سے لاہور پہنچانے میں کم از کم 2 مہینے تو ضرور لگ ہی گئے ہوں گے۔ اور اب یہ مختلف دریاؤں میں سفر کرتا ہوا بالآخر لاہور کی بندر گاہ میں داخل ہو گیا تھا، جہاں اسے متعلقہ محکمے نے وصول کر کے اسٹیمر سے اتارنے کے انتظامات کیے ہوئے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: لاہور سمیت پنجاب بھر میں ابرکرم برسنے کا امکان
استقبال کی تیاریاں
یہ مارچ 1862ء کے موسم بہار کا ایک خوبصورت دن تھا جب پھولوں اور باغات کے شہر لاہور کے لیے محکمہ ریلوے کا دیا ہوا یہ عظیم اور قیمتی تحفہ یعنی پہلا دْخانی انجن دریائے راوی کے کنارے پہنچ گیا۔ اب اگلا مرحلہ اس دیوہیکل مشین کو راوی کی بندر گاہ سے نکال کر اسٹیشن تک پہنچانا تھا جو یقینا جان جوکھوں کا کام تھا۔
یہ بھی پڑھیں: ترکیہ، دفاعی تنصیبات پر حملہ، ہلاکتوں کی اطلاعات
عوام کا جوش و خروش
حکومت وقت نے بڑے فخر سے اس کی لاہور آمد کا اعلان کیا اور خوب ڈھنڈورے پیٹے گئے۔ لوگ ادھر اْدھر سے سْن سنا کر اس انجن کو دیکھنے کے لیے جوق در جوق اس مقام پر پہنچے۔ اس شورو غل سے دور، چوبرجی کے مقام پر اس انجن کے باقاعدہ استقبال کی محفل سجائی گئی تھی، جہاں خوبصورت بینڈ باجے، ناچ گانے اور جشن کا اہتمام کیا گیا تھا۔
یہ بھی پڑھیں: حریم شاہ اور ہمایوں سعید کی پرانی ویڈیو وائرل
منصوبہ بندی اور کوششیں
انجن کو اسٹیمر سے باہر نکالنے اور پھر اسے لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹ کر آگے لے جانے کے لیے 100 سے زیادہ بیل گاڑیاں جوتی گئیں۔ سیکڑوں کی تعداد میں مزدور زور آزمائی کے لیے اس قافلے کے ساتھ تھے۔
نوٹ
یہ کتاب ”بک ہوم“ نے شائع کی ہے (جملہ حقوق محفوظ ہیں)۔ ادارے کا مصنف کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں۔