امریکہ میں سفارتکاری: بلاول بمقابلہ بینظیر بھٹو، ایک تجزیہ

بلاول بھٹو زرداری کا تاریخی دورہ
واشنگٹن (ڈیلی پاکستان آن لائن) تجزیہ نگار نسیم حیدر کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو زرداری کے بھارت کے خلاف مؤثر انداز میں مقدمہ پیش کرنے کے بعد اب ان کا دورہ برطانیہ اور یورپ جاری ہے۔
یہ بھی پڑھیں: کیا خراب پڑوسیوں کے تعلقات بھارت کو افغان طالبان کی طرف دھکیل رہے ہیں؟
بے نظیر بھٹو کا موازنہ
نجی ٹی وی جیو نیوز کا کہنا ہے کہ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر بے نظیر بھٹو اس مشن پر ہوتی تو آیا وہ اس سے زیادہ مؤثر انداز اپناتیں؟ یا پھر اگر ذوالفقار علی بھٹو مغربی ممالک کا دورہ کرتے تو بھارت کے خلاف کیا کارنامہ انجام دیتے؟
یہ بھی پڑھیں: راولپنڈی: فیض آباد انٹرچینج سے پی ٹی آئی کارکنوں سمیت 2 سرکاری ملازم بھی گرفتار
بلاول بھٹو کا پس منظر
سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو کا موازنہ شہید بے نظیر بھٹو اور شہید ذوالفقار علی بھٹو سے کرنا شاید قبل از وقت ہے، لیکن یہ خیال میرے ذہن میں اس لیے آیا کیونکہ اگست 2007 میں جب میں نے بے نظیر بھٹو کا جیونیوز کے لیے انٹرویو کیا تھا، بلاول بھٹو آکسفورڈ یونیورسٹی جانے والے تھے۔ بے نظیر بھٹو نے مجھے بتایا کہ بلاول کے لیے انہوں نے وہ کمرہ ریزرو کرایا ہے جہاں ان کے نانا ذوالفقار علی بھٹو درس و تدریس کے دور میں رہے تھے۔
یہ بھی پڑھیں: گلگت بلتستان میں شدید بارشوں اور سیلاب کے نتیجے میں 3 سیاح جاں بحق
سیاسی تجربات کی کمی
بلاول بھٹو 2022 اور 2023 کے درمیان مختصر عرصے کے لیے وزیر خارجہ رہے ہیں لیکن وہ بے نظیر بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو کی طرح ملک کے وزیراعظم بننے یا ان تجربات سے گزرتے نظر نہیں آتے۔ تاہم کہا جاتا ہے کہ بچے کے پاؤں پالنے میں نظر آتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ پیپلز پارٹی کے کئی سینئر رہنماؤں سے پوچھا گیا کہ اگر بے نظیر ہوتیں تو مقدمہ پیش کرنے کا انداز کیا ہوتا۔
یہ بھی پڑھیں: وزیر خزانہ امریکہ روانہ
چیلنجنگ عالمی حالات
یہ بات واضح ہے کہ ماضی کے مقابلے میں آج پاکستان کو بھارت کا مقدمہ پیش کرنے میں زیادہ مشکلات کا سامنا ہے، خاص طور پر ان ممالک میں جہاں بھارت ایک پسندیدہ ملک بنایا جا چکا ہے۔ موجودہ وقت میں پاکستان کے لیے مغربی ممالک کو قائل کرنا ایک کٹھن مرحلہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پی ٹی آئی رہنما شرمندہ یا خوفزدہ؟عمران خان سے ملاقات کیلئے بھی کوئی نہ آیا
بلاول بھٹو کی صلاحیتیں
امریکہ میں سفارتکاری کی نوعیت پر بات کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے کئی رہنماؤں نے کہا کہ بلاول بھٹو درحقیت بے نظیر بھٹو اور ذوالفقار علی بھٹو کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ ان کی صلاحیتیں اور انداز تخاطب واضح کرتے ہیں کہ وہ کس مہارت سے سفارتکاری کر رہے ہیں۔
نتیجہ اور تاثر
یہ کہا جا سکتا ہے کہ بلاول بھٹو نے اپنی والدہ کی کمی کو پورا کیا ہے اور نانا کی طرح دو ٹوک انداز میں پاکستان کا مقدمہ لڑا ہے۔ ان کے دورے کی کامیابی نے یہ بتا دیا ہے کہ وہ نہ صرف اپنے خاندان کی وراثت کو زندہ رکھ رہے ہیں بلکہ اپنے ملک کا مؤقف بھی مؤثر انداز میں پیش کر رہے ہیں۔