وفاقی بجٹ، زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ
تحریر کا آغاز
تحریر: خالد شہزاد فاروقی
سال 2025-26 کا وفاقی بجٹ پیش کیا گیا تو حسب روایت حکومت نے “اپنی کارکردگی کی قصیدہ گوئی” کے ساتھ “خوش فہمیوں” کے انبار لگا دیے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: نیپال میں خوفناک مظاہروں کی اصل وجہ سامنے آ گئی
بجٹ کی تفصیلات
وزراء نے دعویٰ کیا کہ یہ بجٹ عام آدمی کے لیے ہے، ملکی معیشت کو مستحکم کرے گا اور ترقی کی نئی راہیں کھولے گا مگر جب اس بجٹ کی تفصیلات پر نگاہ دوڑائی جائے تو یہ سب دعوے محض زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے اور “اعداد و شمار کا گورکھ دھندہ” محسوس ہوتے ہیں۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: 9 مئی واقعات پر مزید کچھ لوگوں کے فیصلے ایک دو دن میں ہوں گے: رانا ثنااللہ
معاشی چیلنجز
ایک ایسے وقت میں جب ملک قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے، مہنگائی آسمان کو چھو رہی ہے، بیروزگاری عام ہے، صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور تعلیم و صحت کی صورتحال ابتر ہے، وہاں یہ بجٹ محض “طاقتور طبقے کی خوشنودی” اور عالمی مالیاتی اداروں کی خوشی حاصل کرنے کی ایک کوشش لگتا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: سستی گاڑیوں اور سرمایہ کاری کے نام پر شہریوں کو لوٹنے والے گروہ کا اہم کارندہ گرفتار
بجٹ کی تفصیلات کی حقیقت
کل وفاقی اخراجات کا تخمینہ 17.5 ہزار ارب روپے لگایا گیا ہے جو کہ ملکی تاریخ کا سب سے بڑا بجٹ ہے مگر جب ہم اس خطیر رقم کا تجزیہ کرتے ہیں تو واضح ہوتا ہے کہ بجٹ کا بیشتر حصہ عوامی فلاح و بہبود کے بجائے قرضوں کی ادائیگی، دفاعی اخراجات اور اشرافیہ کی مراعات پر مشتمل ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ڈاکٹر شعیب سرور ہاشمی اور ڈاکٹر عاصم یوسف کی اہم ملاقات،پیشنٹ مینجمنٹ اور ڈونر مینجمنٹ سسٹم کو ٹیکنالوجی سے لیس کرنے پر گفتگو
سودی چکر
سب سے بڑا جھٹکا یہ ہے کہ اس بجٹ کا 46.7 فیصد حصہ یعنی تقریباً آدھا، محض سود کی ادائیگیوں کے لیے مختص کر دیا گیا ہے۔۔۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو ہماری معاشی خودمختاری کو نگل رہا ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: این اے 129 ضمنی الیکشن، مسلم لیگ ن کے ٹکٹ کی افواہوں پر حماد اظہر کی طرف سے وضاحت آگئی
عوامی فلاح و بہبود کے لیے کم سرمایہ کاری
ملک کے بنیادی مسائل مثلاً تعلیم، صحت، زراعت، صنعتی ترقی اور روزگار پر خرچ کرنے کے بجائے “سود خور نظام” کی پرورش کی جا رہی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: کچھ تو سوچ سمجھ کر بات کریں، کبھی تو کچھ بخش دیا کریں،ہم تو ایسے لوگ ہیں کہ نہ شرمندہ ہوتے ہیں نہ ہی کچھ چھوڑتے ہیں،اُس کی کہی بات کڑوا سچ ہے
دفاعی اخراجات
دفاعی اخراجات 14.5 فیصد رکھے گئے ہیں۔۔۔ اگرچہ قومی سلامتی بے حد اہم ہے مگر سوال یہ ہے کہ جب ملک کا اندرونی معاشی و سماجی ڈھانچہ برباد ہو چکا ہو، تو کیا ہم خالی بندوقوں سے قومی سلامتی کو یقینی بنا سکتے ہیں؟
یہ بھی پڑھیں: قربانی کے لیے لائے گئے اونٹ نے شہری کا ہاتھ چبھا دیا
گرنٹس اور سبسڈی
گرانٹس یعنی سرکاری اداروں کو دی جانے والی بلا سود امداد 11 فیصد ہے، جبکہ سبسڈی صرف 6.7 فیصد رکھی گئی ہے، حالانکہ مہنگائی کی شدت نے عام آدمی کی کمر توڑ دی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: ہم امن وامان برباد نہیں ہونے دیں گے: وزیرداخلہ محسن نقوی
بنیادی خدمات کی خراب صورتحال
تعلیم اور صحت کی صورتحال تو انتہائی دردناک ہے۔۔۔ ہزاروں سکول بغیر اساتذہ، لاکھوں بچے سکول سے باہر، سرکاری ہسپتال دوائیوں سے خالی۔۔۔ مگر ان دو اہم شعبوں پر بجٹ میں کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
یہ بھی پڑھیں: وادیٔ نیلم میں جیپ کھائی میں گرنے سے ایک ہی خاندان کے 4 افراد جاں بحق
حکومتی ناکامی
ایک ایسا بجٹ جس میں آدھی سے زیادہ رقم سود میں چلی جائے، باقی دفاع، گرانٹس، بیوروکریسی اور سیاسی اشرافیہ کی عیاشی پر خرچ ہو اور عوام کے لیے چند فیصد چھوڑ دیے جائیں، اسے “عوام دوست بجٹ” کہنا خود فریبی ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: سندھ ہائیکورٹ: کاروکاری کے الزام میں قتل نوجوان کی نعش ڈھونڈنے کیلئے کمیٹی بنانے کا حکم
حکومت کی نااہلی
عوام کو اس وقت صرف مہنگائی ہی نہیں مار رہی بلکہ حکومت کی نااہلی، بدنیتی اور غلامانہ سوچ بھی اس بربادی کی بڑی وجہ ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: لندن میں پاکستانی ہائی کمیشن کی طرف جانے کی کوشش میں بھارتی انتہاپسند مظاہرین گرفتار
عملی جدوجہد کی ضرورت
یہ وقت محض تنقید کا نہیں، عملی جدوجہد کا ہے۔۔۔ ملک کو قرضوں کے چنگل سے نکالنے اور حقیقی ترقیاتی منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔۔۔
یہ بھی پڑھیں: کوئٹہ میں زلزلہ
نوٹ
نوٹ: یہ مصنفہ کا ذاتی نقطہ نظر ہے جس سے ادارے کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
شمولیت کی دعوت
اگر آپ بھی ڈیلی پاکستان کیلئے لکھنا چاہتے ہیں تو اپنی تحاریر ای میل ایڈریس ‘[email protected]‘ یا واٹس ایپ "03009194327" پر بھیج دیں۔








